پاکستان کی حکومت نے کم آمدنی والے طبقات کی مالی معاونت پر مشتمل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی جگہ 'احساس کفالت پروگرام' متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ حکام نے واضح کیا ہے کہ پروگرام کا مقصد بی آئی ایس پی کا دائرہ کار مزید وسیع کرنا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر کہتی ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے خواتین کو غیر مشروط مالی معاونت کی بجائے حکومت اب احساس کفالت پروگرام کے تحت راشن کے لیے پیسے فراہم کرے گی۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان آئندہ ماہ اس نئے پروگرام کا افتتاح کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی ایک ادارے کا نام ہے جو کہ ایک ایکٹ کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ لہذا نہ تو ادارہ ختم ہو رہا ہے اور نہ ہی قانون میں تبدیلی کرنے جارہے ہیں۔ بلکہ ہم نے اس کے نظام میں بہتری اور شفافیت لا کر ادارے کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔
حکومتِ پاکستان پر حزب اختلاف کی جانب سے یہ تنقید ہو رہی ہے کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بند کر کے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ حکومتِ اس پروگرام کے تحت مستحق افراد کو وظیفہ دیتی ہے۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے 2010 میں یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ جس کے ذریعے لاکھوں مستحق خاندانوں کی مالی مدد کی جاتی ہے۔
ثانیہ نشتر کہتی ہیں کہ غریب خاندانوں کو سہ ماہی بنیادوں پر مالی معاونت کے لیے امدادی رقوم کی ادائیگی کا نیا ڈیجیٹل نظام لائے ہیں۔ جس کے ذریعے شفافیت آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ "احساس کفالت پروگرام کے تحت مستحق افراد کو اتنی رقوم دی جائیں گی کہ ان کے راشن کی ضروریات پوری ہو سکیں۔"
وزیر اعظم کی معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کے پروگرام 'وسیلہ حق' 'وسیلہ روزگار' اور 'وسیلہ صحت' کو بدعنوانی کے باعث ختم کیا گیا. تاہم وسیلہ تعلیم اب بھی جاری ہے جس کا دائرہ کار مزید پھیلایا جا رہا ہے۔
'غربت سروے سے جان سکیں گے کون مستحق ہیں'
ثانیہ نشتر نے کہا کہ حکومت غربت کے حوالے سے نیا سروے کرا رہی ہے جو کہ 50 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔ جسے آئندہ سال جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس غربت سروے کی بنیاد پر نئے خاندانوں کو مالی معانت کے پروگرام کا حصہ بنایا جائے گا جبکہ غیر مستحق افراد کو خارج کر دیا جائے گا۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے بتایا کہ بی آئی ایس پی کے تحت اب تک جو نقد رقم کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں وہ پرانے سروے کے مطابق ہیں۔ لہذٰا اب ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مستحق نہیں اور سرکاری خزانے سے رقوم وصول کر رہے ہیں۔
ثانیہ نشتر نے کہا کہ غربت کے حوالے سے سروے مختلف مراحل میں کیا جا رہا ہے۔ جو کہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے زیادہ اضلاع میں مکمل کرلیا گیا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی اداروں سے اجازت میں تاخیر کے باعث تاحال شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ احساس کا راشن کفالت پروگرام کا آغاز غربت سروے مکمل ہونے والے اضلاع سے کریں گے جسے بعد ازاں ملک بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ غربت سروے آئندہ سال جون میں مکمل کرلیا جائے گا جس کے بعد نئے افراد کو اس احساس کفالت پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔
عالمی بینک نے پاکستان سے متعلق اپنی حالیہ جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومت نے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بی آئی ایس پی کے لیے مختص 45 ارب میں سے صرف پانچ ارب روپے ہی مستحقین تک منتقل کئے ہیں۔
خیال رہے کہ عالمی بینک کے ساتھ قرض معاہدے کے تحت پاکستان نے غربت میں کمی کے لیے سالانہ 180 ارب روپے مختص کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
'لنگر خانوں اور پناہ گاہوں پر تنقید ناقابل فہم ہے'
وزیر اعظم کی معان خصوصی کہتی ہیں کہ لنگر خانوں اور پناہ گاہوں پر تنقید ناقابل فہم ہے اور تنقید کرنے والے افراد کو پہلے ان پناہ گاہوں اور لنگر خانوں میں جا کر مستفید ہونے والے افراد سے ملنا چاہیے۔
حکومت لنگرخانوں اور پناہ گاہوں کے پروگرام کو ملک بھر میں پھیلا رہی ہے اور اسے مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کے لیے سماجی بہبود کی تنظیوں کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا۔
سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈویژن کے حوالے سے بتاتے ہوئے ثانیہ نشتر نے کہا کہ ان کی وزارت سماجی تحفظ، غربت مٹانے اور اداروں کے مابین شفافیت لانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت بی آئی ایس پی، پاکستان بیت المال، پاورٹی ایلیویشن فنڈ سمیت 134 ایسے اقدامات پر کام کیا جا رہا ہے۔ جس کے ذریعے ضرورت مند افراد کی بہبود اور انہیں غربت کی لکیر سے اوپر لایا جا سکے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کے دو طرح کے اہداف ہیں اور آئندہ چار سالوں میں اس پروگرام کے ذریعے حکومت ایک کروڑ لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کرے گی۔