عدالتِ عالیہ لاہور نے اسلامی ریاست میں کسی بھی فردِ واحد کو جہاد کے نام پر چندہ جمع کرنے یا لوگوں کو اُکسانےکی اجازت نہ دینے کا فیصلہ دیا ہے۔ عدالت کے مطابق ایسا کرنا غداری کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
عدالتِ عالیہ لاہور کے جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کیا ہے کہ کوئی بھی شخص ذاتی حیثیت میں یا کوئی بھی غیر سرکاری تنظیم جہاد کے نام پر چندہ جمع نہیں کر سکتی۔ ایسا صرف ریاست کر سکتی ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب ریاست کی جانب سے اعلان کردہ جنگ ہو۔
عدالت نے بدھ کو انسدادِ دہشت گردی سرگودھا کی عدالت سے سزا پانے والےمحمد ابراہیم اور عبیدالرحمٰن کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم جماعت یا کسی بھی شخص کو ذاتی حیثیت میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کالعدم جماعت تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ماضی میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست اور اداروں کو نقصان پہنچا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔
واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی سرگودھا کی عدالت نے گزشتہ سال جنوری میں دو ملزمان محمد ابراہیم اور عبیدالرحمٰن کو کالعدم جماعت ٹی ٹی پی کے لیے رقوم جمع کرنے، لوگوں کو اکسانے اور ممنوع مواد رکھنے کے جرم میں پانچ پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلےپر مبصرین کا کہنا تھا کہ حکومت بطور ریاست ایسے فیصلوں پر عمل بھی سختی سے کرائے تا کہ عالمی اداروں کے سامنے پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی کی رائے میں کوئی بھی تنظیم جس کا اندارج حکومت کے پاس نہ ہو یا ایسے مقاصد، جس کے لیے اس کا اندراج ہے، وہ اُن مقاصد سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو وہ غیر قانونی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ایسی کوئی بھی تنظیم جس کا اندراج سرکار کے پاس ہے یا نہیں اُس کو جہاد کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت پاکستان کا قانون بھی نہیں دیتا کیوں کہ جہاد کی تعریف ہر فرد کی مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرکار اس بات کی اجازت دے دے یا جہاد کرنے کی اجازت دے تو افراتفری یا غیر یقینی کی صورتِ حال ہو جائے گی۔ ان کے بقول اسلامی نظریے کے مطابق جہاد حاکمِ وقت یا حکومت کر سکتی ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل علی شگری سمجھتے ہیں کہ ریاست اپنے دفاع کے لیے کچھ بھی کرتی ہے وہ جہاد کے زمرے میں آتا ہے البتہ کسی بھی شخص کو اپنے دفاع یا لوگوں پر حملے کو جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس نے کہا کہ بات انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی نہیں بلکہ مسائل اُس وقت پیدا ہوئے ہیں جب گورننس کا مسئلہ آتا ہے۔ اُن کے بقول پاکستان میں حکمتِ عملی خاصی نرم رہی ہے جس کی وجہ سے مسائل آتے رہے ہیں۔
اُن کی رائے میں پاکستان کو بطور ریاست نرمی دکھانے کے بجائے سخت طریقے سے قوانین اور فیصلوں پر عمل کرانا چاہیے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
افضل شگری نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں بہت سی کمزوریاں ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی چیز کا حل صرف قانون بنانا نہیں ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادروں کو وسائل فراہم کرنا بھی اہم ہے۔ اُن کے بقول اگر حکومت صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ غیر قانونی طور پر چندہ اکٹھا کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو اُس کے لیے حکومت کو وسائل بھی دینے ہوں گے۔ اِسی طرح ایسے کیسز میں گواہوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق انسپکٹر جنرل پولیس بتاتے ہیں کہ ماضی میں ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا قدرے مشکل کام تھا۔ اگر ریاست کی معاونت واضح ہو تو معاملات بہت آسان ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی کی رائے میں ماضی میں جب بھی کالعدم تنظیمیں یا دیگر کوئی جماعت ایسی کسی بھی سرگرمی کے لیے رقوم اکٹھا کرتی تھیں وہ سرکار کی اجازت کے بجائے اس کی لاپروائی کی وجہ سے اکٹھا کرتی تھیں۔
اُن کے بقول سرکار نے کبھی ایسی تنظیموں کو روکا نہیں جس کے باعث ایسی تنظیموں کے حوصلے مزید بڑھے۔ زیادہ تر تنظیمیں فلاحی کاموں کی آڑ میں انتہا پسند تنظیموں کے لیے رقوم اکٹھی کرتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قوانین میں سرکار، کسی بھی گروہ ، تنظیم یا شخص کے خلاف جہاد کے لیے مالی معاونت کی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر حکومتیں کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اُس سے وقتی طور پر جان چھڑاتی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایسے فیصلے جو کسی جماعت پر پابندی لگانے کے عوض حکومت، ریاست یا عوام کےفائدے کے لیے ہوتے ہیں تو وقتی طور پر اُس تنظیم کے ارکان شور مچاتے ہیں البتہ حکومت مستقل حل کے بجائے وقتی طور پر جان چھڑانا بہتر سمجھتی ہے۔
خیال رہے پاکستان جون 2018 سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو غیر قانونی طور پر رقوم باہر بھیجنے (منی لانڈرنگ) ، دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے اور جہادی تنظیموں کی فنڈنگ پر پابندی لگانے کے حوالے سے اپنے نظام میں موجود نقائص کو دور کرنے کے لیے مہلت دے رکھی ہے۔
پاکستان نے اِس سلسلے میں جماعت الدعوة، لشکرِ طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، حرکت المجاہدین، داعش اور دیگر جماعتوں پر پابندیاں لگا رکھی ہے اور اِن کے خلاف مختلف مقدمات بھی درج ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تسنیم نورانی کی رائے میں ایسے فیصلے ایف اے ٹی ایف سمیت دیگر عالمی اداروں کی نظر میں پاکستان کے مؤقف اور حیثیت کو بہتر بنائیں گے۔ اُن کے بقول ایسے فیصلوں سے یہ تاثر بھی جاتا ہے کہ پاکستان میں مثبت سوچ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔
افضل علی شکری تسنیم نورانی کے اِس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کی نظر میں ایف اے ٹی ایف عملی اقدامات دیکھنا چاہتی ہے۔
اُن کی رائے میں ایف اے ٹی ایف عملی طور پر دیکھنا چاہتی ہے کہ پاکستان میں ریاست ایسی تنظیموں یا کالعدم جماعتوں کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے مسائل پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے اور صحیح بنیادوں پر اُن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات مانتے ہوئے قاعدے اور قوانین تو بہت سے بنا دیے ہیں البتہ اس سے درست کام کرنے والی نجی تنظیموں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔