شاہانہ اجون اُن مظاہرین میں شامل تھیں جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد اس وقت کے اپوزیشن رہنما اور موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اُنہیں دلاسہ دیا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ اُن کے بچے کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
شاہانہ اجون کا 15 سالہ بیٹا اسفند بھی اُن درجنوں معصوم بچوں میں شامل تھا جو آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بن کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
شاہانہ آج بھی انصاف کی منتظر ہیں اور اس کے لیے اُن سمیت سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین نے سپریم کورٹ سے رُجوع کر رکھا ہے۔
شاہانہ اجون کے بقول اُنہوں نے عمران خان کو آرمی پبلک سکول کے گیٹ پر روک کر کہا تھا کہ صوبے کی عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ اسی لیے دیے تھے تاکہ وہ انہیں تحفظ دے سکیں جس میں وہ ناکام رہی لہذٰا خیبر پختونخوا کی انتظامیہ اس سانحے کی ذمہ دار ہے۔
شاہانہ اجون سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ذمے داروں کو سزا دلوانے کے لیے ہر فورم پر سرگرم رہی ہیں اور ہر سماعت پر عدالت بھی جاتی ہیں۔ لیکن وہ وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت اور وزیرِ خارجہ کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اور اُنہیں مشروط معافی دینے کے بیانات پر اب مایوس ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہانہ کا کہنا تھا کہ "وہ (ٹی ٹی پی) ہمارے مجرم ہیں انہوں نے ہمارے بچے قتل کیے۔ لہذٰا اُنہیں معافی دینے یا نہ دینے کا اختیار سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کے پاس ہے۔ یہ اختیار ریاست کو نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت کو یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں پوچھنا چاہیے تھا۔"
شاہانہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں بڑے سانحات کے ذمے دار بڑے لوگ ہمیشہ بچ نکلتے ہیں اور ہمیشہ چھوٹے اہل کاروں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ لہذٰا ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر اُن سب کو سزا ملے جن کی غفلت کی وجہ سے معصوم بچوں کی جانیں گئیں۔
شاہانہ کی طرح سانحہ آرمی پبلک اسکول کے دیگر متاثرین بھی حکومتِ پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے اعلان پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کو اعتماد میں لیے بغیر مذاکرات کے اعلان سے اُن کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو تحریک کے بعض جنگجو داعش میں شامل ہو کر خطے میں مزید بدامنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان نے رواں ماہ ایک انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کی تھی۔
ترک ٹی وی 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ٹی ٹی پی کے کارکن عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔
سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملوں میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
ادھر بدھ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ آرمی پبلک اسکول پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران متاثرہ والدین نے اس وقت کے اعلٰی فوجی اور سول حکام کو سانحے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ اے پی ایس متاثرین کا گلہ ہے کہ جو ادارے بچوں کی سیکیورٹی کے ضامن تھے ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔
متاثرہ والدین نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک، کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام اور وفاقی سیکرٹری داخلہ اختر علی شاہ کو بھی غفلت کا مرتکب ٹھیرایا ہے۔
دورانِ سماعت سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف تھا کہ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو تو سزائیں دی گئیں، لیکن غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی امن کی خاطر کالعدم تنظیموں سے براہ راست مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ تاہم ان کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔
'پاکستان کو امن کی ضرورت ہے'
گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان نے ملک کے مختلف حصوں، بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا میں 100 سے زائد حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے جس میں زیادہ نشانہ سیکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی بنایا گیا ہے۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محقق اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ذرائع ابلاغ سے منسلک پروفیسر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امن کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اُن کے بقول ملک جن حالات سے اس وقت گزر رہا ہے اور گرد و نواح میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایسے میں امن کی خاطر تمام شدت پسند گروہوں سے بات چیت ضروری ہے۔ لیکن سب سے بنیادی سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کس قیمت پر؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ اگر ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اب تک کے ہونے والے تمام معاہدے ناکام ہو چکے ہیں جس کے بعد بدقسمتی سے ملک میں شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوا۔
حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کا دکھ سمجھتی ہے اور اُن کے پیاروں کو انصاف دلوانے کے لیے کوشاں ہے۔
خیال رہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد حکومت نے سزائے موت پر پابندی ختم کرتے ہوئے دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے جیسے اقدامات کیے تھے۔
مختلف فورمز پر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے لواحقین سے ملاقاتوں میں بھی حکومتی نمائندے اُنہیں ہر معاملے میں اعتماد میں لینے اور اُن کے تحفظات سننے کی یقین دہانیاں کراتے رہتے ہیں۔
ماضی میں شدت پسند تنظیموں کے ساتھ ہونے والے معاہدے
حالیہ برسوں میں شدت پسندوں کے ساتھ سب سے پہلے امن معاہدہ جنوبی وزیریستان کے طالبان کمانڈر نیک محمد کے ساتھ 2004 میں ہوا۔ کچھ امن معاہدے بعد میں بیت اللہ محسود، مولوی فقیر محمد، صوفی محمد، مولوی نظیر، حافظ گل بہادر وغیرہ کے ساتھ بھی ہوئے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے دوران (2009) سوات کے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کا اختتام ملٹری آپریشن کی صورت میں ہوا۔
اس آپریشن کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں وادی سوات سے تعلق رکھنے والے افراد کو گھروں سے بے گھر ہونا پڑا۔ تاہم چند ماہ کے بعد طالبان قیادت بشمول ملا فضل اللہ کو علاقہ چھوڑنا پڑا۔ جس کے بعد مقامی آبادی اپنے علاقوں میں دوبارہ سے منتقل ہو گئیں۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی حکومت اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ یہ مذاکرات چند ماہ جاری رہے تاہم ملک میں شدت پسندی کی کارروائیاں بھی ساتھ ساتھ جاری رہیں۔ جس کے باعث شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان، القاعدہ اور دیگر ملکی و غیر ملکی تنظیموں کے خلاف آپریشن 'ضربِ عضب' شروع کیا گیا۔
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے پاکستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد سے دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان کو یہ امید تھی کہ طالبان پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کر کے ٹی ٹی پی کا اپنی سر زمین سے مکمل صفایا کر دیں گے۔ تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرے۔
ماہرین کے مطابق طالبان کبھی بھی ٹی ٹی پی کو بزور طاقت افغان سر زمین سے ختم نہیں کریں گے۔
ڈاکٹر عرفان اشرف کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان قیادت اور پاکستانی حکومت کسی سمجھوتے پر پہنچ جاتے ہیں تو ٹی ٹی پی کے 'فٹ سولجرز' داعش میں شمولیت کا اعلان کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان اشرف کے مطابق طالبان کے ساتھ بات چیت میں کافی زیادہ مشکلات ہیں۔ پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ طالبان بات چیت سے قبل ہتھیار ڈال دیں۔ جب کہ دوسری جانب طالبان کو یہ شرط منظور نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ممکنہ ڈیل کے بعد اگر یہی طالبان اپنے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔