بدھ کے روز بند کمرے میں پیس اینڈ سیکورٹی کونسل میں لیبیا پر جو بحث ہوئی اس کے بارے میں ایک افریقی سفارتکار نے کہا کہ یہ انتہائی نا خوشگوار بحث تھی۔ اس سفارتکار نے درخواست کی کہ اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ لیبیا کے سفیر نے مظاہرین کے خلاف ،جو معمر قذافی کے اکتالیس سالہ دور حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے، اپنی حکومت کی طرف سے مہلک طاقت کےاستعمال کا دفاع کیا۔
لیبیا کے نمائندے رپورٹروں سے کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ اس کے بعد پندرہ رکنی کونسل نے تین گھنٹے تک بحث کی اور پھر ایک مختصر سا اعلامیہ جاری کیا۔
اس سے ایک روز قبل، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں مہلک فورس استعمال کرنے پر لیبیا کے حکام کی مذمت کی تھی۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ طاقت استعمال کرنے والوں کی جوابدہی کی جانی چاہیئے۔
عرب لیگ نے لیبیا کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل امر موسیٰ نے لیبیا میں سویلین آبادی کے خلاف، کرایے کے فوجیوں، گولہ بارود اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال پر عربوں کی ناراضگی کا ذکر کیا۔
دنیا بھر میں ٹیلیویژن پر جو تشدد دکھایا جا رہا ہے، اس کا الزام دیتے ہوئے، افریقی یونین کی کونسل نے زیادہ احتیاط سے کام لیا۔ فروری کے لیے کونسل کے چیئرمین، افریقی یونین کے لیے نمیبیا کی سفیر، کاکینا نانگولا نے رپورٹروں کو اس بیان کے بارے میں بتایا’’کونسل نے لیبیا کے لوگوں کے افسوسناک جانی نقصان کی شدید مذمت کی اور تمام متعلقہ لوگوں پر زور دیا کہ وہ جان و مال کے مزید نقصان سے بچنے کے لیے صبر و ضبط سے کام لیں۔‘‘
کونسل کے اعلامیے کا جو ورژن وائس آف امریکہ کو بھیجا گیا اس کی زبان کچھ زیادہ سخت تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ کونسل طاقت کے اندھا دھند استعمال کی شدید مذمت کرتی ہے ۔
سفیر نانگولا نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ لیبیا میں لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کی بیشتر خبروں کا ذریعہ میڈیا کی رپورٹیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کونسل حقائق کا پتہ چلانے کے لیے ایک ٹیم لیبیا بھیجے گی جو مرنے والوں کے سرکاری اعداد و شمار اور نیوز ایجنسیوں کے دیئے ہوئے اندازوں کے درمیان فرق کا بھی پتہ چلائے گی۔’’لیبیا کے سفیر نے کونسل کو 270 اموات کی اطلاع دی ہے۔ ان میں سویلین باشندے، فوجی اور دوسرے تمام لوگ شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ کافی نہیں ہیں۔ ہم ان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہم وہاں جانا چاہتے ہیں تا کہ خود حقائق کا پتہ چلا سکیں۔‘‘
لیبیا کی حکومت کے اقدام پر افریقی یونین کے سفارتکار سخت کارروائی کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ افریقی یونین میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ، Zachary Muburi-Muita نے کہا ہے کہ اکیسویں صدی کے افریقی لیڈروں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے اختلافِ رائے کو کچل نہیں سکتے۔’’گذشتہ عشروں میں، آپ جو چاہتے دیدہ دلیری سے کر سکتے تھے اور کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا کیوں کہ آپ کوئی وزیر، جنرل، یا ملک کے صدر ہوتےتھے۔ اکیسویں صدی میں یہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی یہ بات قبول نہیں کر سکتا کہ چونکہ آپ کوئی با اثر شخصیت ہیں، اس لیے آپ عام لوگوں کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔‘‘
افریقی یونین کے کئی سفارتکار اور سرکاری افسر کہتے ہیں کہ پیس اینڈ سکیورٹی کونسل کے محتاط بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افریقی یونین اپنے ایک مالدار ترین اور منہ پھٹ لیڈر پر تنقید کرنے سے گھبراتی ہے۔ معمر قذافی 2009ء میں افریقی یونین کے چیئرمین تھے اور اس وقت انھوں نے پُر زور الفاظ میں یورپی یونین کی طرح ریاست ہائے متحدہ افریقہ کے قیام کی پُر زور وکالت کی تھی۔ مسٹر قذافی کی طرف سے زور دیے جانے کے با وجود، اس منصوبے پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ۔
لیبیا ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جو اس تریپن رکنی تنظیم کی رکنیت کی فیس کا دو تہائی حصہ دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معمر قذافی غریب افریقی ملکوں کو مالی امداد دیتےہیں اور اس کے عوض افریقی یونین کے معاملات میں ان کی حمایت کی توقع کرتے ہیں۔