لیبیا: باغی قیادت کےغیرپیشہ ور مگر پرجوش جنگجو

باغی جنگجو

مغربی علاقے کی پہاڑیوں میں پیش قدمی کے باوجود ، ساحلی شہر بریگا کے اِرد گِرد کھُلےمیدانوں میں جاری جنگ میں کامیابیاں رک سی گئی ہیں

فر انسیسی عہدیداروں کی جانب سے یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ اُنھوں نے مغربی لیبیا میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کئے ہیں، وہاں حکومت کے مخالفین کی حالیہ فتوحات سمجھ میں آتی ہیں۔ حکومت کی پیشہ وارانہ فوج کے خلاف بر سر پیکار باغیوں کی یہ پیش قدمی، ان کی معدودے چند کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

مغربی علاقے کی پہاڑیوں میں پیش قدمی کے باوجود ، ساحلی شہر بریگا کے اِرد گِرد کھُلےمیدانوں میں جاری جنگ میں کامیابیاں رک سی گئی ہیں۔ باغی قیادت نے غیر پیشہ وارانہ مگر پرجوش جنگجوؤں کی رہنمائی کے لئے ایک مربوط منصوبے کی تیاری پر چار ماہ سرف کئے ہیں۔ تاہم، اس کے ملے جلے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

باغیوں کی قومی عارضی کونسل کے ترجمان جلال الگلال کہتے ہیں: ’کھلے میدانوں میں یہ تعطل اس وجہ سے برقرار رہے گا کیونکہ انکے پاس ہماری نسبت بہت بہتر ہتھیار ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس نصب العین بھی ہے اور عزم بھی، تاہم جہاں تک ہتھیاروں کا تعلق ہے ہم انکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘

فرانسیسی امداد کےباوجود جِس کا حال ہی میں انکشاف ہوا ہے، لیبیا کو ہتھیاروں کی فراہمی پر اقوام متحدہ کی جانب سے عائد پابندی کے باعث ، باغی پہلے سے موجود ہتھیاروں سے کام چلارہے ہیں۔

بن غازی سے باہر ایک فوجی کیمپ میں رضاکار پہلے سے موجود چیزوں میں اختراعات کےماہر بنتے جا رہے ہیں۔

باغی فوج کے رابطہ کار عبدالرحمان بوسین کے الفاظ میں: ’کوئی بھی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ ہر چیز کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘


ایک دوسرے کمرے میں چند آدمی ایک خود ساختہ راکٹ لانچر کو آخری شکل دے رہے ہیں۔ عبدالرحمان ایک ہتھیار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس کو خاص طور سے طیارہ شکن میزائل کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اسے واقعی کسی گھر میں تیار کیا گیا ہے۔

کچھ کر گزرنے کا یہ جذبہ باغیوں کی رسد کی دوسری کوششوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کلہا نامی ایک ریستوران میں اس کے مالک سمیع شک مک نے اپنے کاروبار کو جنگ کے دوران استعمال ہونے والے باورچی خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔یہاں چند رضاکاروں کی مدد سے باغی فوجیوں کے لئے کھاناپیک کیا جارہا ہے۔ سمیع کے بقول، فوج کے پاس خوراک نہیں ہے۔ اگلے محاذ پر موجود افراد کے پاس کھانا نہیں ہے۔ اس لئے ان کے وہاں قیام کو یقینی بنانے کے لئے ہم انہیں کھانا بھجوا رہے ہیں۔

ایسی ہی کوششوں کی وجہ سے لیبیا کی حزب اختلاف/ سیاسی مظاہرین سے ایک ایسی جنگجو فورس میں تبدیل ہو رہی ہے جو دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔ تاہم الگلال کا کہنا ہے کہ نیٹو کی فضائی کاروائیوں کے باوجود انہیں مزید مدد درکار ہے۔ الگلال کے بقول، ’مجھے امید ہے کہ یہاں جرنیل، چیف آف سٹاف، اور وزیر دفاع ، بین الاقوامی برادری کے فوجی مشیروں کے ساتھ ملکر کسی چیز پر کام کر رہےہونگے ، اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔‘

تاہم الگلال بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بہت زیادہ خوش امیدی ہو۔