’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بدھ کے روز بتایا ہے کہ لیبیا میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے اہل کار اعترافی بیانات کے حصول کے لیے قیدیوں پر سختی، طبی دیکھ بھال سے انکار اور ضابطہ کار سے تجاوز کے حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔
گروپ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اِن الزامات کی تفصیل پیش کی گئی ہے، جس کی بنیاد جنوری سے اپریل کے عرصے کی ہے، جس دوران فوج اور وزارت داخلہ نے مشرقی لیبیا میں تین حراستی مراکز کا دورہ کیا۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بتایا ہے کہ بن غازی اور البدیہ کی تنصیبات پر مجموعی طور پر 450 اسیر قید ہیں، جن میں سے نصف نے بتایا ہے کہ حراست کے دوران اُنھیں اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ باضابطہ طور پر فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ہی، اُنھیں وکلا سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی نہ جج سے ملنے کی اجازت تھی۔
حقوق انسانی کے گروپ نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کے پاس اختیارات کی عدم دستیابی کے باعث امن و امان میں بڑے پیمانے کا تعطل پیدا ہوگیا ہے، جب کہ انصاف کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کو یکطرفہ طور پر زیر حراست لینے کا اقدام کیا گیا۔ ا
ختیارات کے حصول کی جدوجہد میں، لیبیا بٹا ہوا ہے، جو تبروک میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور دارالحکومت طرابلس سے کارفرما شدت پسندوں کی قیادت والی نام نہاد حکومت کے درمیان جاری ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے تبروک میں قائم حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ قیدیوں کے خلاف باضابطہ طور پر الزام عائد کیے جائیں، اور اُنھیں رہا کردیا جائے جن کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اُن سے جرائم سرزد ہوئے ہیں۔
گروپ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ الزامات بھی اُس کے علم میں آئے ہیں کہ تبروک حکومت کی مخالف میلیشائیں بن غازی میں ضابطوں کے خلاف حراستی مراکز چلا رہی ہیں، لیکن ہیومن رائٹس واچ کے کارکن اِن تنصیبات تک رسائی کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔