پاکستانی معاشرے میں ’لڑکے‘ اور ’لڑکی‘ کا فرق ابھی ختم نہیں ہوا۔ تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا ہر جگہ لڑکوں کو ترجیح اور لڑکیوں کو نظر انداز کرنے کا رجحان کم ضرور ہوا ہے، لیکن ختم نہیں ہوا۔
حد تو یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کا کورس کرانے جیسے اہم معاملے میں بھی لڑکوں یہ لئے یہ ’ضروری‘ سمجھا جاتا ہے، جبکہ لڑکیوں کے معاملے میں یہ رائے دی جاتی ہے’’لڑکی کا کیا ہے اسے تو آج نہیں تو کل دوسرے گھر جانا ہی ہے ،سمجھ دار ہوجائےگی تو خود ہی اپنی صحت اور کھانے پینے پر توجہ دے لے گی۔‘‘
آغا خان یونیورسٹی کراچی کے ماہرین نے ایک کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ ’’معاشرے میں پچھلے 30 سالوں سے یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ تین دہائیوں تک اس رجحان کا جاری رہنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ نوعمر لڑکیوں اور خواتین میںقابل علاج مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات مردوں سے زیادہ ہیں۔‘‘
کانفرنس میں وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے دوران ہی ’سینٹر آف ایکسیلنس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ‘، آغا خان یونیورسٹی کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے بتایا کہ ’’لڑکیوں کی صحت اور تعلیم کے حوالے سے عدم توجہی یا صنفی عدم مساوات معاشرے کی ’وڈیرہ شاہی سوچ‘ کا نتیجہ ہے۔ اس سے نہ صرف خواتین کے لیے قومی ترقی کے دھارے میں شمولیت کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں بلکہ سماجی ترقی پر منفی اثرات بھی پڑتے ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر بھٹہ کے مطابق ’’پاکستانی معاشرے میں بالغ افراد کی صحت کے اہداف اس وقت تک حاصل نہیں کیے جا سکتے جب تک صنفی عدم مساوات ختم نہ کردی جائے۔‘‘
ڈاکٹر بھٹہ نے وی او اے کو بتایا کہ ’’پاکستان میں ہیضے کی شکایات اور مرض اس لئے بڑھ رہا ہے کہ ہرشہری کوپینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ نا ہی نکاسی آب کا نظام بہتر ہے ۔ یہی حال نمونیا جیسی بیماری کا بھی ہے۔‘‘
پاکستان پیڈیاٹرک ایسو سی ایشن سندھ کے صدر اور قومی ادارہ صحت برائے اطفال کے سربراہ ڈاکٹر جمال رضا، ایسو سی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر خالد شفیع، صوبائی صدر ڈاکٹر جمیل اختر اور ڈاکٹر جلال اکبر بھی اسی خیال کے حامی ہیں کہ ’’پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام 'ای پی آئی' میں پانچ سال قبل یعنی اکتوبر 2012 میں نمونیا کی ویکسین شامل کی گئی لیکن 47 فیصد والدین بچوں کو نمونیا کی ویکسی نیشن، جبکہ 65 فیصد والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کرواتے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’تولیدی عمر کی حامل نصف سے زائد خواتین میں مائیکرو نیوٹر یئنٹس کی کمی اور پانچ سال سے کم عمر بچوں میں انیمیا ( جسم میں فولاد کی کمی) جیسے مسائل بھی ہنوز موجود ہیں ۔ وٹامن ’اے‘ کی شدید اور معتدل کمی کے شکار بچوں کاتناسب بھی 2001 کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر بھٹہ مزید کہتے ہیں ’’خواتین کی صحت ، تعلیم اور سماجی ترقی کے متعین کردہ اشاریوں تک نہ پہنچنے کے باعث پاکستان ’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے تحت تشکیل دیئے گئے عالمی اہداف حاصل نہیں کر پا رہا۔‘‘
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں 65 فیصد والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کراتے، جبکہ نمونیا کی بیماری نومولود او ر کمسن بچوں میں اموات کی دوسری اہم بڑی وجہ ہے ۔یہاں ہر سال 92ہزار بچے نمونیا ہونے کے سبب انتقال کر جاتے ہیں جو تشویشناک صورتحال ہے۔ 47فیصد والدین اپنے بچوں کو نمونیا اور ڈائریا سے بچاؤ کے ٹیکے کا کورس مکمل نہیں کراتے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیدا ہونے والے 42 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہوتے ہیں،71 فیصد مائیں بچوں اپنا دودھ نہیں پلاتیں ماؤں کو چاہیے کہ پیدا ہونے والے بچے کو کم از کم چھ ماہ تک اپنا دودھ پلائیں۔ماں کا دودھ قدرتی ویکسین ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔