آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ماضی کے چار برسوں کی نسبت ایسے واقعات کی تعداد زیادہ رہی۔
'پنجاب کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن' کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے 7313 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2015ء میں یہ تعداد 6505 اور 2014ء میں 5967 تھی۔
لیکن رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر تشدد میں 12.4 فی صد جب کہ جنسی تشدد کے واقعات میں 17 فی صد اضافہ ہوا۔
حالیہ برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں مؤثر قانون سازی ہوئی ہے جب کہ پنجاب میں اس ضمن میں بنائے جانے والے قوانین کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔
رواں ہفتے ہی پنجاب کے دو مختلف علاقوں سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں دو خواتین کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر ان کے رشتے داروں نے قتل کر دیا جب کہ ایک شوہر نے مبینہ طور پر گھریلو ناچاقی ختم نہ کرنے پر اپنی بیوی کی ناک تیز دھار آلے سے کاٹ دیا۔
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ صنفی علوم کی سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری کے خیال میں پاکستان میں بنائے گئے قوانین تو بہت اچھے اور جامع ہیں لیکن معاشرہ مجموعی طور پر فرسودہ ہے جس کی وجہ سے قوانین کے خاطر خواہ نتائج فی الوقت سامنے نہیں آ رہے۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، "جس معاشرے میں آپ نے ان قوانین کو نافذ کرنا ہے وہاں کا سماجی ڈھانچہ، نظریات اور جو عورت کو اپنی ملکیت تصور کرنے کی سوچ ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ان میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آ سکی کیونکہ آپ نے تعلیم کو عام کیا اور نہ ہی ان قوانین کی معلومات و آگاہی نچلی سطح تک پہنچائی اور یہی مسئلہ ہے۔"
ڈاکٹر فرزانہ باری کے نزدیک ماضی کی نسبت خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کر رہی ہیں اور زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں اور ان پر تشدد میں اضافہ اس عمل کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔
"کیونکہ خواتین اپنے حقوق چاہتی ہیں تو اس کا ایک ردعمل یہ ہو رہا ہے کہ سماج میں اس طرح کے ظلم عورتوں پر بڑھ رہے ہیں، کیونکہ مردوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا وہ عورتوں کو اپنی مرضی سے جینے کا اختیار دینا نہیں چاہتے۔"
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کی نگرانی بھی کرنی چاہیے کیونکہ کمزور طرز حکمرانی اور غیر موثر فوجداری نظامِ انصاف کے ہوتے ہوئے قوانین پر تسلی بخش عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔