امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع تفریح گاہ نیشنل مال میں قائم بہت سے عجائب گھر اور یادگاریں سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں، ان میں لنکن میموریل بھی شامل ہے۔ یہ یادگار امریکہ کے 16 ویں صدر ابراہام لنکن کی خدمات کے اعتراف میں تعمیر کی گئی تھی، جنہوں نے 1861 سے 1865 تک ملک کی قیادت کی اور ملک سے غلامی کے خاتمے کےلیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
لنکن کا دورامریکی تاریخ کا مشکل ترین دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کی 11 جنوبی ریاستوں نے غلامی کے مسئلے پر اختلافات کرتے ہوئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔
لنکن میموریل خانہ جنگی کے خاتمے کے لگ بھگ 50 سال کے بعد اس وقت بنایا گیا جب خانہ جنگی کے باعث جنم لینے والی تقسیم کی شدت میں کمی آئی ، لیکن نسل پرستی کی تقسیم آج بھی کسی نہ کسی سطح پر برقرار ہے۔
لنکن میموریل کو دیکھنے ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔
یادگار کا بیرونی حصہ مشہور قبل از تاریخ یونانی عبادت گاہ ’پارتھینن‘ سے مشابہت رکھتا ہے۔ عمارت کے اندر ایک چبوترے پر ابراہام لنکن کا 6 میٹر بلند سنگ مرمر کا مجسمہ نصب ہے۔
ریاست پنسلوانیا سے تعلق رکھنے والی کالج کی ایک طالبہ ہنا ویگنر کہتی ہیں کہ ’لنکن ایک بے مثال صدر تھے۔ میں ان تمام کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں جو انہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے کیے‘۔
روز ویلٹ ہاؤس پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور لنکن پر تحقیق کرنے والے اسکالر ہیرالڈ ہولزر کہتے ہیں کہ ’لنکن کی مشہور تقاریر کے اقتباسات یادگار کی دیواروں پر کندہ ہیں، جن میں گیٹیز برگ کا وہ مشہور خطاب بھی شامل ہے جو انہوں نے خانہ جنگی کے دوران ہونے والی سب سے بڑی لڑائی کے مقام پر کیا تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان اقتباسات میں دوسرے سالانہ صدارتی خطاب کے جملے بھی شامل ہیں جس میں انہوں نے غلامی کو قومی جرم قرار دیتے ہوئے اسے خانہ جنگی کی وجہ قرار دیا تھا۔انہوں نے اس خطاب میں قوم سے کہا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں‘۔
واشنگٹن میں نیشنل مال اور میموریل پارکس کے ترجمان، مائیک لیٹرسٹ نے کہا کہ، ’’یادگار کے اندر ایک خاموش لہجہ، اس عظیم شخصیت کی تعظیم کی علامت ہے جو اتنے برسوں کے بعد آج بھی برقرار ہے۔‘‘
گھانا سے آنے والے ایک سیاح ایڈجو کوٹی نے کہا کہ صدر لنکن میرے لیے ایک ہیرو تھے کیونکہ انہوں نے بہت سے سیاہ فاموں کو آزاد کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔
تاریخ دان ایڈنا گرین میڈفورڈ نے وی او اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ لنکن نے اس ملک میں غلامی کے خاتمے کا دروازہ کھولا تھا، مگر ان کے علاوہ بہت سے افریقی امریکیوں نے بھی اپنی آزادی کے لیے فعال کردار ادا کیا۔
لنکن میموریل کی تعمیر 1914 میں شروع ہوئی اور اس کا افتتاح 30 مئی 1922 میں کیا گیا۔ مگر غلامی کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرنے والی اس عظیم شخصیت سے منسوب یادگار کی افتتاحی تقریب میں نسلی تفریق کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دی۔
اس تقریب میں کسی سیاہ فام کو اگلی نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ان عقبی نشستوں پر بٹھایا گیا جو سیاہ فاموں کے لیے مختص کی گئیں تھیں۔
اس تقریب کے واحد سیاہ فام مقرر ٹسکی گی انسٹی ٹیوٹ کے صدر رابرٹ روسا ماٹن تھے مگر انہیں بھی اپنی تقریر سینسر کرنی پڑی۔
لیکن اس دن کے بعد سے لنکن میموریل نے شہری حقوق کی تحریکوں اور دیگر مظاہروں کے مواقع پر ایک پس منظر کے طور پر کام کیا۔
ان مشہور واقعات میں سے ایک واقعہ سیاہ فام گلوکارہ ماریان اینڈرسن کا ہے۔ وہ میموریل کے قریب ایک مقام پر عوامی پرفارمنس کرنا چاہتی تھیں، لیکن انہیں وہاں اپنی تقریب کی بجائے میموریل کے سامنے پرفارمنس کی اجازت دے دی گئی۔ یہ تقریب اس لیے بھی یادگار ہے کہ ماریان اینڈرسن کو دیکھنے اور سننے کے لیے 75 ہزار سے زیادہ کا مجمع اکھٹا ہوا۔
پھر اسی طرح کا ایک اور مشہور واقعہ اگست 1963 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے مارچ کے دوران پیش آیا۔ انہوں نے اسی مقام پر اپنی مشہور زمانہ تقریر’ میرا ایک خواب ہے‘( آئی ہیو اے ڈریم) اسی میموریل کے سائے میں کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹھیک ایک سو سال پہلے 1863 میں ابراہام لنکن نے ’آزادی کا اعلان‘ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ باغی ریاستوں میں غلام رکھے جانے والے تمام افراد آج سے آزاد ہیں اوروہ آزاد رہیں گے۔