کراچی سے ملتان پہنچنے والی ایک خاتون کو جب اُس کے سابق شوہر نے اپنے بچوں سے ملنے نہیں دیا تو وہ اداسی اور پریشانی کے عالم میں اسی دن واپس اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئیں۔خاتون ملتان سے کراچی جانے والی بہاء الدین زکریا ایکسپریس پرسوار ہوئیں۔
خاتون کو ٹرین میں سوار ہونے سے قبل اسٹیشن سے ٹکٹ نہیں مل سکا تھا اس لیے انہوں نےٹرین پر سوار ہونے کے بعد ٹکٹ چیکر سے ٹکٹ حاصل کیا لیکن انہیں سیٹ نہیں ملی۔ انہوں نے ٹرین کی اکانومی کلاس ڈبے ہی میں اپنا سفرجاری رکھا۔
ملتان سے روانہ ہونے کے کئی گھنٹے بعد روہڑی اسٹیشن سے ریل گاڑی آگے بڑھی تو خاتون کے مطابق زاہد نام کا ایک ٹکٹ چیکر آیا اور ان سے کہا کہ ان کی سیٹ یہ نہیں بلکہ آگے ہے اور وہ انہیں اپنے ساتھ ٹرین کے ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں لے گیا۔
خاتون کے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق ٹکٹ چیکر زاہد، عاقب اور ایک اور شخص نے وہاں پہنچنے پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی، تشدد کیا اور اس کے بعد ان کا گینگ ریپ کیا گیا۔
خاتون کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام تفصیلات بہاء الدین زکریا ایکسپریس کے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ کو بھی بتائی تھیں جب کہ اس نے فوری کارروائی کرنے کے بجائے محض یہ کہا کہ وہ ملتان آفس میں شکایت کر دیں گے۔
بعد ازاں خاتون اکانومی کلاس کے ڈبے میں واپس آگئیں اور کراچی پہنچنے پر وہ بھی باقی مسافروں کی طرح اسٹیشن پر ا تر گئیں۔ باقی مسافر تو اسٹیشن سے روانہ ہوگئے لیکن وہ پریشانی کے عالم میں پلیٹ فارم پر ہی بیٹھی رہی۔
ایک اکیلی خاتون کو پریشانی کی حالت میں دیکھ کر پولیس اہل کار انہیں ہیلپ سینٹر لے آئے تاہم خاتون کے مطابق انہوں نے اپنی عزت کے ڈر سے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔
بعدازاں پولیس نے خاتون کو ان کی بہن کے ساتھ گھر جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد خاتون نے گھر جاکر اس واقعے کا ذکر بہن سے کیا۔
پولیس کو اخبار کی خبر سے اطلاع ملی
بہاء الدین زکریا ایکسپریس میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے حوالے سے پاکستان ریلویز کی پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کوثر عباس کا کہنا تھا کہ مقامی اخبار میں خبر چھپنے کے بعد اعلیٰ حکام کے کہنے پر خاتون کو اورنگی ٹاون میں واقع ان کے گھر سے بلا کر بیان ریکارڈ کیا گیا اور واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ایس ایس پی ریلویز کے مطابق متاثرہ خاتون کا میڈیکل چیک اپ کرانے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ روہڑی اور حیدرآباد اسٹیشن کے درمیان چلتی ہوئی ٹرین میں پیش آیا تھا۔
حکام کے مطابق بہاء الدین زکریا ایکسپریس آوٹ سورس ہے یعنی نجی کمپنی کے پاس اس کا انتظام ہے جس کے تحت ٹکٹ چیکنگ کا انتظام کانٹریکٹر کی ذمہ داری ہے۔ ٹرین میں ڈرائیور، فائر مین، اسسٹنٹ ڈرائیور اور گارڈ انچارج ریلویز ہی کے ملازمین ہیں۔ ٹرین پر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے علاوہ دو پولیس اہل کار بھی تعینات ہوتے ہیں۔
’خاتون نے پولیس کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے متعلق کچھ نہیں بتایا‘
اس واقعے کے حوالے سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ریلویز پولیس فیصل شاہکار بتاتے ہیں کہ آؤٹ سورس ٹرینوں میں موجود پولیس اہل کار صرف ضرورت پڑنے پر ہی مداخلت کرتے ہیں۔
متاثرہ خاتون کے دعوے کے برعکس ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس کے کسی اہل کار کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔
منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس میں ایس ایس پی فیصل شاہکار کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں کانٹریکٹر کے خلاف بھی مجرمانہ غفلت کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔
آئی جی پولیس کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے ہر ٹرین میں کیمرے نصب کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ اگر ٹرینوں میں کیمرے لگائے جائیں تو ایسے واقعات کے ساتھ چوری کی وارداتوں کی بھی روک تھام ممکن ہے۔ان کے بقول اس واقعے میں بھی کیمرے نہ ہونے سے تفتیش میں دقت ہوگی۔
’متاثرہ خاتون نے ریلوے انتظامیہ کی درخواست پر واقعہ رپورٹ کیا‘
پاکستان ریلویز کے ترجمان نے خبر کی اشاعت کے بعد پیر کو پہلے تو اس کی مکمل تردید کرتے ہوئے واقعہ ہونے سے ہی انکار کیا۔
بعد ازاں انہوں نے اس واقعے سے متعلق تفصیلی بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بہاء الدین زکریا ایکسپریس میں پیش آنے والے واقعے کو متاثرہ خاتون نے ریلوے انتظامیہ کی درخواست پر رپورٹ کیا۔ کراچی اسٹیشن پر اترنے کے بعد بھی خاتون نے پولیس ہیلپ ڈیسک سے مدد طلب نہیں کی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں نامزد ملزمان سمیت واقعے میں ملوث تین افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بہاء الدین زکریا ایکسپریس کو آپریٹ کرنے والے نجی شعبے کے ٹھیکیدار کو بھی اظہارِ وجوہ کا نوٹس ارسال کیا گیا ہے جب کہ ٹرینوں میں موجود پرائیویٹ شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام ملازمین کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے دوبارہ جانچ پڑتال کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
’خواتین کے لیے اکیلے سفر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے‘
ٹرین میں خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آنے پر انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی جانب سے بھی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن مہناز رحمٰن کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ ملک میں خواتین کے لیے اکیلے سفر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں خواتین اپنے مختلف کاموں اور تعلیم کے حصول کے لیے اکیلے سفر کرتی ہیں جب کہ ریلوے کا سفر سستا ہونے کے ساتھ محفوظ بھی تصور کیا جاتا تھا۔
مہناز رحمٰن کا کہنا ہے کہ ستمبر 2020 میں سیالکوٹ موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد اب ٹرین میں ایسا واقعہ ہونے پر انتظامیہ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ خواتین کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی اور جلد سزا دلوانا قانون کی حکمرانی اور عورتوں کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
’لڑکیوں کے لیے اکیلے سفر کرنا کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں‘
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں زیرِ تعلیم تھرڈ ایئر کی طالبہ سائرہ حمید (اصل نام تبدیل کیا گیا ہے) کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے شہر حیدرآباد سے کراچی تعلیم کے لیے انہیں اکثر اکیلے سفر کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس سفر کے لیے ٹرین کا بھی انتخاب کرتی ہیں لیکن اس واقعے نے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے گھر والوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بری حالت، سفری سہولیات کے فقدان میں خواتین کو جہاں ہراسانی کے واقعات کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے، وہیں ریپ جیسے واقعات سامنے آنے کے بعد اکیلے سفر کرنا لڑکیوں کے لیے کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔