ہمسایہ ملک روس سے سلامتی اور خطے سے دور واقع چین سے تجارتی میدان میں خطرات سے دو چار یورپ کے بالٹک خطے میں واقع ایک ملک لتھوانیا نے امریکہ سے مدد کی اپیل کی ہے۔
28 لاکھ کی آبادی کے ملک لتھوانیا کے سرکاری اہل کاروں کے مطابق انہیں روس سے یوکرین کی سرحدوں پر فوجی موجودگی سے پیدا ہونے والے حالات اور تائیوان کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھولنے کی بنا پر اسے چین کی جانب سے ردعمل کے دوہرے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔
لتھوانیا کی پارلیمنٹ کی دفاعی اور خارجہ امور کی کمیٹیوں کے سربراہوں نے واشنگٹن کو حال ہی میں واضح پیغام دیا کہ ان کا ملک امریکہ کے دو طاقتور ترین چیلنجرز کے خلاف صف آرا ہے اور ماسکو اور بیجنگ کی جارحیت کے خلاف دفاع میں اس کی کامیابی کے لیے امریکی حمایت اہم ہے۔
لتھوانیا کی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی سربراہ، لائما لیوسیجا اینڈریکین نے وائس آف امریکہ کو 3 فروری کو واشنگٹن کے ایک ہفتے کے دورے کے اختتام پرانٹرویومیں کہا: " ہم یہاں دو مسائل کو حل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ایک سیکیورٹی کا مسئلہ ہےاور یہ روس، یوکرین بیلاروس اور بالٹک کے علاقے کے بارے میں ہے۔ دوسرا چین ہے، یہ تجارتی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ سلامتی کا بھی مسئلہ ہے۔ "
واشنگٹن کا دورہ کرنے والا پارلیمانی وفد قومی سلامتی، دفاع اور خارجہ امور کی کمیٹیوں کے انچارج چار قانون سازوں پر مشتمل تھا جسے سیماس کہا جاتا ہے۔ دورے کے دوران وفد نے امریکی سینیٹ اور ہاؤس بالٹک کاکسز دونوں کے اراکین کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک سینیٹر باب مینینڈیز اور ریپبلکن سینیٹر جیمز ای رِش سے بھی ملاقات کی، جو امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے بالترتیب چیئرمین اور رینکنگ سینیئر اقلیتی رکن ہیں۔
لتھوانیا کےوفد کی جانب سے قومی سلامتی اور دفاعی کمیٹی کے چیئرمین لوریناس کاسیوناس نے کہا کہ ان کے لیے اس وقت سب سے بڑمسئلہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوجوں کی بڑی تعداد میں موجودگی ہے، اس سے خطے کو اسٹریٹجک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مختلف حالات ممکنہ طور پر بن سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ روس کا مقصد ایک ہی ہے، چاہے یہ مذاکرات کے ذریعے ہو یا فوج کے ذریعے۔ وہ یہ ہے کہ ماسکو نہ صرف مشرق میں نیٹو کی توسیع کو روکنے کے لیے "ویٹو کا حق" حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ "بالٹک ریاستوں کے لیے دوسرے درجے کی رکنیت کے ساتھ ایک دو یا تین درجے والا نیٹو بھی بنانا چاہتا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روس چاہتا ہے کہ لیتھوانیا، لٹویا اور ایسٹونیا رسمی طور پر نیٹو میں رہیں لیکن فوجی مشقوں اور نیٹو کی تعیناتی کے بغیر۔"
روسی سوچ کی ٘مخالفت کرتےہوئے انہوں نے کہا:" ہم اسے مسترد کرتے ہیں، یہ امریکہ اور نیٹو کے لیے بہت اچھا ہے کہ وہ جواب دیں۔"
کاسیوناس نے مشرق میں اپنے ملک کے پڑوسی بیلاروس کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے 2020 کے متنازعہ انتخابات پر بڑے پیمانے پر مظاہروں کی دھمکی کے بعد مدد کے لیے ماسکو کا رخ کیا، اس نے اپنی خودمختاری اور غیرجانبداری کھو دی ہے۔
اس کے بعد سے بیلاروس سے فرار ہونے والے کارکنوں کے لیے لیتھوانیا ایک محفوظ پناہ گاہ بن گیا ہے، جن میں جلاوطن اپوزیشن لیڈر سویٹلانا تسخانوسکایا اور ان کے بچے بھی شامل ہیں۔
کاسیوناس نے کہا کہ روس کی جانب سے بیلاروس میں فوجیوں کی تعیناتی یوکرین پر ممکنہ حملے کی تیاری کے ایک حصے کے طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ لتھوانیا کو، جو کہ ایک نیٹو رکن ریاست ہے، کتنی جلدی اسی طرح کے دباؤ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
لتھوانیا نے اس ہفتے جرمنی اور نیدرلینڈز کی طرف سے لتھوانیا میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا۔
تاہم کاسیوناس نے کہا کہ امریکی مدد بھی اہم ہے۔
SEE ALSO: روس اولمپکس ختم ہونے سے پہلے یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے، وائٹ ہاؤس
اس ضمن میں نہوں نے کہا کہ لتھوانیا میں اس وقت ایک فوجی بٹالین ہے جسے ٘مختلف جگہوں پر بھیجا جاتا ہے،"" لیکن ہمیں مزید جنگی تیاری کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے قومی نظام میں مزید مربوط ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بٹالین کی گردشی تعیناتی کے درمیان کوئی خالی جگہیں نہیں ہونی چاہییں۔
لتھوانیا کے سفارت خانے کے ایک اہل کار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب تک، لیتھوانیا میں امریکی فوجیوں کی اپنی باری کی تعیناتی کو بعض اوقات ہفتوں یا مہینوں تک الگ کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق قومی سلامتی اور دفاعی کمیٹی کی ایک اور رکن ڈووائل ساکالینی نے جو وفد کا حصہ نہیں تھیں، کہا کہ وہ اس سے متفق ہیں۔ انہوں نے لتھوانیا سے ایک فون انٹرویو میں کہا کہ "ڈیٹرنس دفاع سے بہت سستا ہے۔"
"ہم سرد جنگ کے زمانے کے مغربی برلن کی طرح محسوس کرتے ہیں،" کاسیوناس نے کہا۔
"ہمارے پاس صرف ایک چھوٹی راہداری ہے، سووالکی گیپ، جو ہمیں بالٹک ریاستوں کو پولینڈ کے راستے نیٹو کے بقیہ نظام سے جوڑتا ہے۔ جس طرح نیٹو نے مغربی برلن میں سوویت یونین سے دفاع کیا اور اسے روکا، اسی طرح ہم نیٹو سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ممکنہ حملوں کو روکے۔ "
چین کے ساتھ اختلافات کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے کاسیوناس نے لیتھوانیا کے کچھ فیصلوں کا حوالہ دیا اور اس سلسلے میں پچھلے برس کو "کمیونزم مخالف لڑائی کا ایک سال قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ لتھوانیا کے فیصلوں سے بیجنگ برہم ہے۔
SEE ALSO: بیلا روس میں روس کی 10 روزہ بڑی فوجی مشقیں شروع ، یوکرین کی شدید مذمت
ان اقدامات میں ایک طرف تو مضبوط سرمایہ کاری کی اسکریننگ کا طریقہ کار شامل تھا اور اس کا مقصد لتھوانیا کے اسٹریٹیجک اثاثوں کی حفاظت کرنا تھا ۔ دوسری طرف انہوں نے کہا کہ لتھوانیا نے تائیوان کے ساتھ ملک میں اپنے نام سے ایک نمائندہ دفتر قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔
کاسیوناس نے کہا کہ چین نے ان اقدامات کے بعد ان کے ملک کو سزا دینے کا فیصلہ کیا، " نہ صرف ہمیں سزا دینے کے لیے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی پیروی سے روکنے کے لیے"۔
" چین نے نہ صرف ہماری برآمدات پر پابندی لگا دی، بلکہ لتھوانیا کے لیے چینی برآمدات کو بھی روک دیا۔
چین کے ان اقدامات کے باعث لتھوانیا کی ان کمپنیوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے جو اپنی پیداوار کے لیے چینی درآمدات پر انحصار کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ چین نےان بین الاقوامی کمپنیوں، خاص طور پر جرمن کمپنیوں، کو بھی ہراساں کیا، جن کی سپلائی چین میں چھوٹی سطح پر لتھوانیا کے حصے شامل تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ چین لتھوانیا کو ایک ایسا غیر معتبر ملک بنانا چاہتا ہے، جو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش نہ رہے۔