ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو درپیش بلدیاتی مسائل کی بات ہو تو صوبے میں تقریباً 15 سال سے بلا شرکت غیرے برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی موضوعِ بحث بنتی ہے۔تب یہ بھی نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہاں کے مسائل حل نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی قیادت صوبے کے دیگر اضلاع اور ڈویژنز سے منتخب ہوکر آتی ہے اس لیے انہیں کراچی کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں۔
لیکن اس حالیہ بلدیاتی انتخاب کے اب تک کے نتائج نے صورتِ حال اس حد تک تبدیل کردی ہے کہ کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی بڑی تعداد میں نشستیں لے کر سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اتوار کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) اور حیدرآباد کی ضلعی میونسپل کارپوریشن دونوں میں پہلی بار حکمران پیپلز پارٹی مئیر لانے کی پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے۔
اگرچہ کے ایم سی میں کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت تو حاصل نہیں کرسکی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر کراچی بھر میں 91 نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی ہے جس نے 88نشستیں حاصل کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت تحریک انصاف ہے جس نے مجموعی طور پر 40 یونین کمیٹیوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اس صورتِ حال میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اس بار کراچی سے اپنا مئیر منتخب کرائیں گے۔ لیکن اب تک کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد بنانا ہوگا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت شہر میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو پہلے ہی خارج از امکان قرار دے چکی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ نئے بلدیاتی سسٹم میں صوبے کی بھرپور خدمت کریں گے۔ اور ہمیں اس عزم کے ساتھ کام کرنا ہے کہ صوبے کے عوام کی خدمت اوران کی فلاح کے لیے ہر بہتر اقدامات کریں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی شہر کی نمبر ون پارٹی بن کر سامنے آئی ہے اور ہم سادہ اکثریت کی جانب جا چکے ہیں لیکن ہماری واضح اکثریت کم کرنے کے لیے ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں منی بجٹ کی بازگشت، مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشاتپاکستان تحریکِ انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک لبیک کی جانب سے بھی صوبائی حکومت اور پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کے ایسے ہی الزامات عائد کیے جارہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور الیکشن کمیشن ایسے الزامات کی تردید کررہے ہیں۔
’پیپلز پارٹی نےاپنا ووٹ بینک محفوظ بنایا‘
کئی تجزیہ کاروں کے بقول ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے بعد شہر میں منقسم مینڈیٹ کی توقع کی جارہی تھی۔ سینئیر صحافی مظہر عباس کے مطابق تحریک انصاف کا ووٹر بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے نہیں نکلا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے توقع سے انتہائی کم نشستیں حاصل کی ہیں۔
خیال رہے کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف 14 قومی اسمبلی اور 30 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرکے کراچی سے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ مظہر عباس کے بقول دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت اسلامی نے سب سے مؤثر انتخابی مہم چلائی تھی اور اس نے 86 نشستیں حاصل کی ہیں جو ان کی بڑی انتخابی مہم کا واضح اثر نظر آتا ہے۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سب سے زیادہ نشستیں مظہر عباس کے بقول بالکل بھی حیران کُن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے تقریبا انہی نشستوں سے کامیابی حاصل کی ہے جہاں سے وہ ماضی میں بھی نشستیں حاصل کرتی آئی ہے اور وہاں اس کا ووٹ بینک موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کیماڑی، ملیر، ضلع جنوبی میں لیاری ٹاون اور کچھ دیگر علاقے اس میں شامل ہیں۔ ماضی میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات میں ان علاقوں میں کامیابی حاصل کرتی آئی ہے۔ اس بار انہیں حلقہ بندیوں کا جہاں بھرپور فائدہ ملا وہیں آخر دم تک اس بے یقینی سے بھی پیپلز پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا جس میں بلدیاتی انتخابات کا ہونا یا نہ ہونا واضح نہیں تھا۔
تاہم ایک اور صحافی ارمان صابر کے خیال میں نتائج توقعات کے مطابق نہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حلقہ بندیاں اس طرح کرائی تھیں کہ اس کا ووٹ بنک محفوط رہا اور کم ٹرن آؤٹ میں اسے توقعات سے زیادہ نشستیں مل گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابی سیاست ایک سائنس ہے اور بلدیاتی سیاست اس کی شاخ۔ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرنے کے لیے برسوں کام کیا ہے جس کے لیے کراچی میں نئے اضلاع کی تشکیل اور حلقہ بندیوں کا اختیار استعمال کیا۔ اس کے بعد ووٹنگ کے دن تک بے یقینی پیدا کیے رکھی۔ کراچی میں کئی حلقوں میں پولنگ دن دو بجے شروع کی گئی جبکہ اضافی وقت بھی نہیں دیا گیا۔
ان کے بقول اسی طرح انتخابی نتائج جاری کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی جس سے دھاندلی اور انتخابی نتائج میینج کرنے کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کامیاب رہی اور وہ اب اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں ہے۔
ارمان صابر کے خیال میں بھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان تعاون کا زیادہ امکان نظر آرہا ہے۔ ماضی میں بھی ہم یہ دیکھ چکے ہیں جب 1979 کے بلدیاتی انتخابات کے بعد جماعتِ اسلامی کے عبدالستار افغانی شہر کے میئر بنے تو ڈپٹی مئیر عبدالخالق اللہ والا کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور یہ اتحاد چار سال تک قائم رہا۔
بلدیاتی انتخاب کے نتائج قومی الیکشن پر اثر انداز ہوں گے؟
اس سوال پر کہ کیا بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا یہ مطلب لیا جائے کہ رواں برس عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کراچی سے بہتر پوزیشن میں ہوگی تو مظہر عباس کا کہنا ہتھا کہ بلدیاتی انتخابات اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بہت فرق ہے۔
ان کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مقامی طور پر ہی جوڑ توڑ کی سیاست کرتی ہیں تاہم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے جہاں حلقے بڑے ہوتے ہیں وہاں لوگ بڑے قومی منظر نامے کو سامنے رکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ اس لیے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ کراچی سے آئندہ عام انتخابات میں نتائج کیا ہوں گے۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کیوں کم رہا؟ادھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ڈپٹی کنوینر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بمشکل 20 فی صد ٹرن آؤٹ رہنا ان کی جماعت کے مؤقف کی تائید ہے اور لوگوں نے گھروں ہی میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ایم کیو ایم پاکستان کافی عرصے سے ہر فورم پر آواز بلند کر رہی تھی کہ حلقہ بندیاں درست نہیں ہوئیں مگر موجودہ الیکشن کمیشن نے حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر انصاف و قانون کی دھجیاں اڑادیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن 2023 کا الیکشن شفاف کروائے گا؟
دوسری جانب حیدرآباد کی ضلعی میونسپل کارپوریشن میں بھی پیپلز پارٹی کو واضح برترتی حاصل ہوچکی ہے جہاں 160 یونین کمیٹیوں میں سے 94 پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 39 پر تحریک انصاف اور 16 آزاد امیداور بھی منتخب ہوئے ہیں۔ اور یہ پہلا موقع ہوگا کہ پیپلز پارٹی حیدرآباد سے اپنا مئیر منتخب کرالے گی۔