پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی موجودہ حکومت کی ایک اہم ذمے داری ہے ۔ گو کہ یہ انتخابات پچھلے ایک سال سے مسلسل ٹلتے جارہے ہیں لیکن جلد یا بدیر ان کا انعقاد لازمی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ کب ہوں گے؟ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے گزشتہ دنوں بیان دیاہے کہ بلدیاتی انتخابات ستمبر میں ہوں گے لیکن جس طرح کے موجودہ سیاسی حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نظر نہیں آ تا۔
مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسریاں کہا جاتا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر جمہوری حکمرانوں کے بجائے فوجی حکومتیں ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بناتی رہی ہیں ۔ سنہ 2001ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اختیارات کو نچلی سطح تک لے جانے کا تصور متعارف کرایا جس کے تحت دو انتخابات بھی ہوئے جبکہ موجودہ جمہوری دور میں اس نظام کو مزید بہتر بناتے ہوئے تیسرے انتخابات ہونا تھے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔
صوبہ سندھ اور بلدیاتی انتخابات
اگرصوبہ سندھ کی بات کی جائے تو یہاں سب سےزیادہ حالات گمبھیر ہیں۔ مشرف دورحکومت میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے منتخب عہدیدار ناظم کراچی رہے۔ یہ دونوں جماعتیں اس نظام کی زبردست حمایت کرتی نظر آتی ہیں لیکن پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اس نظام سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کی قیادت پرویز مشرف کے نظام کو آمریت کا نظام قرار دیتی رہی ہیں۔
اس اختلاف رائے کی وجہ سے ہی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک کور کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جس کا مقصد ایسا نظام لانا ہے جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو لیکن گزشتہ تقریبا ایک سال سے اس کے اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں لیکن حتمی مسودہ ابھی تک تیار نہ ہو سکا ۔ ایم کیو ایم کے بار بار اصرار پر بھی یہ سلسلہ مزید طول پکڑتا ہی جا رہا ہے ۔
گزشتہ ماہ یعنی اٹھارہ مئی کو سندھ ہائیکورٹ نے حکومت سندھ کو حکم دیا تھا کہ نوے دن کے اندر اندر صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا کرائےجائیں لیکن یہ مدت بھی ہرروز کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلے میں بھی ابہام ہیں ۔ کیونکہ عدالت نے یہ نہیں بتایاکہ نوے روز بعد کونسے نظام کے تحت انتخابات منعقد کیے جائیں؟
ادھر سپریم کورٹ نے ایک ماہ قبل صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی انتخابات کی واضح تاریخ دینے کا حکم دیا تھا لیکن تاحال کسی جانب سے کوئی مثبت جواب نہ مل سکا ۔
اس کے علاوہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت انتخابی فہرستوں پر بھی شدید تحفظات ظاہر کر رہی ہیں ۔ سندھ حکومت کا جواز ہے کہ سال دو ہزار دس اور گیارہ میں سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں کے باعث حلقہ بندیاں نہیں ہو سکی ہیں جبکہ مردم شماری کا عمل بھی نامکمل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے لہذا اس تمام تر صورتحال میں فوری بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آ رہا ۔
صوبہ پنجاب اور بلدیاتی انتخابات
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کی جائے تو پنجاب حکومت نے چند روز قبل صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد غیر جماعتی انتخابات سے متعلق بیانات دیئے تھے لیکن اس کے فوراً بعد صوبائی قیادت اس کی تردید کرتی نظر آئی ۔ پنجاب حکومت کی اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہو گی ، مبصرین کچھ بھی کہنے سے گریزاں ہیں ۔
خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں قیام امن کا مسئلہ
خیبر پختونخواہ کی حکومت بلدیاتی انتخابات میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبے میں فی الوقت موجود امن و امان کی خراب صورتحال کو قرار دے رہی ہے ۔مذکورہ حالات میں بلوچستان حکومت میں بھی امن وامان سب کے سامنے ہے اور وہاں کی قیادت کا بھی اس معاملے پر کوئی واضح موقف نظر نہیں آ رہا ۔
اس تمام تر صورتحال میں بعض غیر سیاسی حلقے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ملک کے عام انتخابات میں ایک سال کی تاخیر ہوسکتی ہے۔
مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسریاں کہا جاتا ہے، لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر جمہوری حکمرانوں کے بجائے فوجی حکومتیں ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بناتی رہی ہیں