’کابل ایئر پورٹ پر ایک حملہ آور نے ہی خود کش دھماکہ کیا تھا‘

’گزشتہ برس 26 اگست کو کابل ایئر پورٹ کے دروازے پر حملہ کرنے والا خود کش بمبار ایک ہی تھا‘۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کی فوج کی حال ہی میں مکمل ہونے والی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ گزشتہ برس 26 اگست کو کابل ایئر پورٹ کے دروازے پر حملہ کرنے والا خود کش بمبار ایک ہی تھا جب کہ اس حملے کے وقت حملہ آوروں کی فائرنگ یا مزید دھماکے نہیں ہوئے تھے۔

امریکی فوج کے بریگیڈیئر جنرل لانس کرٹس نے صحافیوں سے جمعے کو گفتگو میں تحقیقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے داعش خراسان گروپ کو اس دھماکے کا ذمہ دار قرار دیا۔

یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا تھا جب امریکہ افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے آخری مرحلے میں تھا۔ گزشتہ برس اگست میں کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر ہونے والے خود کش حملے میں 13 امریکی فوجی اور 170 سے زائد افغان ہلاک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ دھماکے کے فوری بعد سینئر امریکی کمانڈرز کا کہنا تھا کہ حملہ کرنے والے دو خود کش بمبار تھے جنہوں نے امریکی فوجیوں اور ہجوم پر فائرنگ کے بعد دھماکے کیے۔

تاہم جنرل کرٹس اور دیگر تفتیش کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ شواہد اس بات کی تائید نہیں کرتے اور داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی فائرنگ کے مقابلے میں بم کی نوعیت کو بہتر طور پر بیان کیا جا سکتا تھا جو کہ 9 کلو گرام فوجی ساختہ بارود اور بال بیرنگز سے بنایا گیا تھا۔

تفتیش کرنے والے حکام کے مطابق بال بیرنگز کی وجہ سے ہونے والے زخم، بالکل گولیاں لگنے والے زخموں جیسے ہی تھے۔

تحقیقات میں مزید کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں پر کی جانے والی فائرنگ کی آوازیں ممکنہ طور پر وہاں موجود امریکی فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کی تھیں جو سیکیورٹی مقاصد سے کی گئی تھی۔

جنرل کینتھ فرینک مکینزی کی طرف سے مذکورہ تحقیقات کو سراہا گیا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس تفتیش کے نتائج، حملے کے فوری بعد کی جانے والی تحقیقات سے مختلف ہیں۔

مکینزی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہولناک حملہ تھا جس کی وجہ سے امریکیوں اور افغانیوں کی جانیں گئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجی واپس تو نہیں آ سکتے تاہم یہ اہم ہے کہ ہمیں پتہ ہو کہ اس دن ہوا کیا تھا۔

SEE ALSO:

طالبان حکومت کی بین الاقوامی قبولیت کی طرف پیش رفت جاری ہے، افغان وزیر خارجہافغانستان میں طلبہ اور طالبات کے لیے یونیورسٹیاں کھل گئیںکابل: آریانہ ٹیلی ویژن کےدو گرفتار صحافیوں کو رہا کر دیا گیا'افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے'پاکستانی تاجروں کو افغانستان سے بھتے کی کالز میں اضافہ

تفتیش کرنے والے حکام کا کہنا تھا کہ ان کے نتائج عینی شاہدین کے بیانات، حملے کے بعد ایئر پورٹ پر پرواز کرنے والے ڈرون کی ویڈیو، فرانزک ثبوتوں اور طبی ماہرین کے نتائج پر منحصر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے افغان عینی شاہدین سے بات نہیں کی کیوں کہ جب تفتیش شروع ہوئی تو امریکہ کی فوج افغانستان سے انخلا کر چکی تھی۔

تفتیش کرنے والے حکام نے زور دیا کہ موقع سے ملنے والے ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ تمام اموات اور لوگوں کا زخمی ہونا بارودی مواد پھٹنے کی وجہ سے ہوا جو اتنا طاقت ور تھا کہ دھماکے کی جگہ کے 50 میٹر تک تباہی ہوئی۔

فوجی حکام کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ چند فوجیوں کو شدید ذہنی چوٹ بھی پہنچی۔

تحقیقات میں مزید کہا گیا کہ اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ دھماکے کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے فوجیوں کی طرف سے کی جانے والی تنبیہی فائرنگ سے کوئی ہلاک یا زخمی ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس چیز کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ طالبان جو کہ اس وقت امریکی فوج کے ساتھ رابطے میں تھے، انہیں اس حملے کے بارے میں آگاہی تھی۔

کرٹس کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تفتیش کے مطابق اس دھماکے کو روکا نہیں جا سکتا تھا اور موقع پر موجود امریکہ کی فوج کے اہلکاروں نے وہ تمام تر حفاظتی اقدامات کیے تھے جو خطرے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ اس دھماکے کے تین دن بعد کابل پر کیے جانے والے امریکی ڈرون حملے میں غلطی سے 10 شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں ایک امدادی کارکن اور سات بچے بھی شامل تھے۔