پاکستان اس وقت دو اطراف سے دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے۔ ایک جانب تو تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر یہ حملے کر رہی ہے۔ جس کی پناہ گاہیں، پاکستان کے بقول افغانستان کے اندر ہیں تو دوسری طرف بلوچستان میں علیحدگی پسند جنگجو کارروائیوں میں مصروف ہیں جن کا ہدف ماہرین کے مطابق پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کیا کرنا چاہیےجو ماضی میں بھی ایسی صورت حال سے دو چار رہا ہے اور ماہرین کے نزدیک اس نے ملک کے اندر جڑ پکڑنے والی طالبان کی تحریک کو مرحلہ وار فوجی آپریشنز میں شدید دھچکہ پہنچایا تھا لیکن ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔
ڈاکٹر خرم اقبال پاکستان کی ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور انسداد دہشت گردی کے امور کے ماہر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے ریاست پاکستان نے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی حکمت عملی ا ختیار کی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
’’ جب ہم بات کرتے ہیں ٹی ٹی پی کی تو اس میں کوئی دو ر آرا نہیں ہیں کہ اس کی پناہ گاہیں آج بھی افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ اور ہاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کی جانب سے بھی یہ بات کہی جا چکی ہے۔ اور کوشش کی گئی کہ افغانستان کی موجودہ حکومت ان پناہ گاہوں کو ختم کردے لیکن طالبان حکومت پاکستان کو وہی جواب دے رہے ہیں جو پاکستان امریکہ کو ا افغان طالبان کے حوالے سے دیا کرتا تھا کہ ہم ان کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر خرم کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کے نچلی سطح کے جو لوگ ہیں، خاص طور سے ان کے جو جنگجو ہیں، ان کی طرف سے رد عمل آئے گا۔ اور طالبان کی اعلی قیادت کو اس کا ادراک ہے۔ اس لیے وہ اگر چاہیں بھی تو ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس یہی آپشن ہے کہ طالبان پر سفارتی دباؤ برقرار رکھے۔ اور ظاہر ہے کہ اس حوالے سے طالبان پر ایک بین الاقوامی دباؤ بھی موجود ہے کہ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے پائے۔
ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا تھا کہ سفارتی دباؤ برقرار رکھنے کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ دوسرے راستے بھی ہیں، جن پر پاکستان عمل کر رہا ہے اور ان میں سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ٹی ٹی ُپی کی جو پناہ گاہیں ہیں انہیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر نشانہ بنایا جائے۔ اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈروں کو مار دیا گیا ہے اور تنظیم کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو کم کیا گیا ہے۔
بلوچستان کے اندر بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں شدت آ رہی ہے اورسمجھا جارہا ہے کہ یہ تنظیم اپنی کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف سکیورٹی فورسز کو بلکہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو بھی اپنا اہم ہدف سمجھتی ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھی پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار چلے جاتے ہیں اور اکثر اوقات افغانستان یا ایران میں روپوش ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر خرم اس بارے میں کہتے ہیں:
’’ ان ہزاروں عسکریت پسندوں کے پاس جو افغانستان سے واپس آئے ہیں، اب دو ہی راستے تھے کہ یا تو بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چھپ چھپا کر گمنامی کی زندگی گزاریں یا جارحانہ انداز میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں پر حملے کریں۔ اور انہوں نے بظاہر دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان حالات میں جب کہ ان عسکریت پسندوں کے لیے اب پاکستان سے باہر بھاگ کر پناہ لینے کی کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔ نہ تو افغان طالبان انہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں، نہ چین سے بہتر ہوتے تعلقات کے سبب ایران اپنے سرحدی علاقوں میں انہیں پناہ دے گا‘‘۔
ڈاکٹر خرم کے بقول ان عسکریت پسندوں کی بیرونی حمایت کا سلسلہ اب ختم ہو چکا ہے اور اس اعتبار سے ان عسکریت پسندوں کے خلاف بلوچستان میں کارروائی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اور اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر شاید پاکستان کو یہ موقع نہ مل سکے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ بلوچ عسکریت پسندی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے اور ساتھ ہی بلوچستان کے جو سیاسی مسائل ہیں، جو اس قسم کی عسکریت پسندی کی سب سے بڑی وجہ بنتے ہیں، ان کو بھی حل کرے۔‘‘
سلمان جاوید انسداد دہشت گردی کے امور پر نظر رکھتے ہیں اور میری ٹائم اسٹڈی فورم سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سےگفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ وہ سمجھتے کہ اگرچہ افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی نہیں کر رہے لیکن انہوں نے کسی نہ کسی حد تک ان پر زمین تنگ کی ہےجس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے دھڑوں میں سے بعض نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ کچھ وہیں مستقل رہائش اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن بعض دھڑوں نے ان دونوں راستوں کو اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ پاکستان کے اندر حملے کر رہے ہیں اور پاکستان ان کے خلاف موثر کارروائیاں کر رہا ہے اور افغانستان کے اندر بھی ان کو ہدف بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بلوچ عسکریت پسندوں کا تعلق ہے، ان کے لیے اب افغانستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور ان کے خیال میں وہ ایران اور پاکستان سرحد کے قریب پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سے آ کر یہ حملے کرتے ہیں۔
سلمان جاوید نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت یہ دونوں گروپ جو افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے بین الاقوامی پشت پناہوں سے کٹ گئے ہیں، اپنے ان پشت پناہوں کو ان حملوں کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی پاکستان کے اندر حملے کرنے کی صلاحیت بدستور موجود ہے۔ اس لیے وہ ان کی مدد اور حمایت کو جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ خطے میں چینی مفادات، پاکستان چین دوستی اور چین کے تعاون سے پاکستان میں چلنے والے منصوبے بھی ان کا ہدف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بلوچستان میں پاکستان کو ان عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جینس پر مبنی آپریشن کرنا چاہیے جب کہ ٹی ٹی پی کے خلاف بھرپور کارروائی کے آپشن کی طرف جانا چاہیے۔