سلمان بٹ کے پی سی بی میں تقرر پر بورڈ میں اور کس کو اعتراض تھا؟

سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف اسپاٹنگ فکسنگ میں ملوث ہونے کے سبب عدالتوں اور سزا کا سامنا کر چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث سابق پاکستانی کپتان سلمان بٹ کو جمعے کو چیف سلیکٹر ر وہاب ریاض کا مشیر مقرر کیا تھا، تاہم شدید عوامی ردِ عمل نے چیف سلیکٹر کو ہی یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔

نگراں وزیرِ اعظم انوارلحق کاکڑ نے بھی پی سی بی میں متنازع تقرری کا نوٹس لیتے ہوئے اس متنازعے تعیناتی کو منسوخ کر دیا ہے۔ وزیرِ اعظم پی سی بی کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔

ہفتے کو پریس کانفرنس میں نہ صرف وہاب ریاض نے اس فیصلے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ ٹیسٹ کرکٹر اسد شفیق کے نام کا اعلان سلمان بٹ کے متبادل مشیر کے طور پر بھی کیا۔

وہاب ریاض کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سلمان بٹ کرکٹ کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہیں مشیر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اب نام واپس لے لیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سلمان بٹ کو ہٹانے کے لیے ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا۔ ان کو مقرر کرنے کا فیصلہ بھی ان کا تھا اور ہٹانے کا بھی فیصلہ انہی کا ہے۔

وہاب ریاض نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کے بعد پی سی بی کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس فیصلے کی تمام ذمہ داری وہ بطور چیف سلیکٹر قبول کرتے ہیں۔

وہاب ریاض کے مطابق ان کے اس فیصلے کو سیکھنے کے عمل کے طور پر لیا جائے۔ جہاں کچھ فیصلے اچھے ہوتے ہیں۔ وہیں کچھ غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔

پی سی بی نے جمعے کو چیف سلیکٹر وہاب ریاض کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی میں جن تین کھلاڑیوں کو شامل کیا تھا ان میں سابق وکٹ کیپر کامران اکمل، سابق فاسٹ بالر راؤ افتخار انجم کے علاوہ سابق کپتان سلمان بٹ بھی شامل تھے۔

لیکن اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ سلمان بٹ کے تقرر پر اعتراضات سامنے آنے کے بعد سابق بلے باز اسد شفیق کو اس کمیٹی میں بطور کنسلٹنٹ شامل کرلیا گیا۔

سلمان بٹ پر الزامات

انتالیس سالہ سلمان بٹ نے پاکستان کی 2003 سے 2010 کے درمیان تینوں فارمیٹ میں نمائندگی کی۔ لیکن ان کا کریئر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے صرف سات سال تک محدود رہا۔

بائیں ہاتھ کے اوپننگ بلے باز کو ان کے اسٹروک پلے کی وجہ سے سعید انور کا جانشین قرار دیا جاتا تھا۔

بھارت کے خلاف 2004 میں ان کی میچ وننگ سینچری ان کے کریئر کا یادگار ترین لمحہ تھا۔ 2006 میں امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش پاکستان آئے تھے تب بھی سلمان بٹ کو ان کی بہتر کمیونیکشن اسکلز کی وجہ سے امریکی ہیڈ آف اسٹیٹ سے گفتگو کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

انہوں نے پاکستان کی 33 ٹیسٹ، 78 ون ڈے اور 24 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نمائندگی کی تھی اور مجموعی طور پر 11 انٹرنیشنل سینچریوں کی مدد سے پانچ ہزار سے زائد رنز اسکور کیے تھے۔

سن 2010 میں شاہد آفریدی کی ٹیسٹ کرکٹ سے اچانک ریٹائرمنٹ کے بعد سلمان بٹ کو پاکستان ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔

ان کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں نہ صرف آسٹریلیا کو شکست دی بلکہ میزبان انگلینڈ کو بھی ایک ٹیسٹ میچ میں ہرایا تھا۔

لیکن جب اسی سیریز کے چوتھے اور آخری میچ کے دوران کپتان سلمان بٹ، فاسٹ بالرز محمد آصف اور محمد عامر کے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے تو ان کے انٹرنیشنل کریئر کو بریک لگ گیا۔

نہ صرف لارڈز ٹیسٹ کے بعد سلمان بٹ کو برطانوی عدالت نے جیل بھیجا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی ان پر 10 سال کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگادی۔

سلمان بٹ کے تقرر پر ردِ عمل

چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے سلمان بٹ کو پی سی بی میں اِن کرنے کی ذمہ داری تو قبول کرلی لیکن درحقیقت اس یوٹرن کے پیچھے سابق کرکٹرز اور سوشل میڈیا صارفین کا بڑا ہاتھ تھا۔

سلمان بٹ ہی کے دو ساتھی کرکٹرز فاسٹ بالرز عبدالرؤف اور تنویر احمد نے ان کے تقرر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ زیادہ تر صحافیوں نے بھی اسے ناقابلِ یقین قرار دیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے تین ٹیسٹ، چار ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں نمائندگی کرنے والے فاسٹ بالر عبدالرؤف نے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا سہارا لے کر افسوس کا اظہار کیا۔

اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ بطور ایک ٹیسٹ کرکٹر انہیں افسوس ہے کہ انہوں نے میچ فکسنگ کے بجائے تعلیم کے شعبے کا انتخاب کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ان کی غلط فہمی تھی کہ اسپورٹس سائنس میں ایم فل کرکے اور تین ماسٹر ڈگریاں حاصل کرکے انہیں کرکٹ بورڈ میں بڑا عہدہ مل جائے گا۔ انہیں میچ فکسنگ کے آسان شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

سابق فاسٹ بالر تنویر احمد نے بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے ذریعے سلمان بٹ کے تقرر پر خوب تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ 2010 میں جس ٹیم کی قیادت سلمان بٹ کررہے تھے، وہ اس کا حصہ تھے۔

ان کے بقول وہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ ان تین کھلاڑیوں کی وجہ سے کس طرح مجرموں جیسا سلوک ہوا تھا۔ اور کیسے ان کی وجہ سے پوری ٹیم کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔

اسپورٹس صحافی بھی اس فیصلے سے زیادہ خوش نہیں تھے۔

صحافی فیضان لاکھانی کا تبصرہ تھا کہ ان کی سمجھ نہیں آرہا کہ اس فیصلے پر کیا ردِ عمل دیں۔

مرزا اقبال بیگ نے اس فیصلے کا ذمہ دار ذکا اشرف کو قرار دیا۔

ان کے خیال میں جب بورڈ کا چیئرمین اپنے قریبی رشتہ دار کو انڈر 19 ٹیم کا فاسٹ بالنگ کوچ نامزد کرسکتا ہے تو میرٹ کے بغیر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض دونوں کو ان کے عہدوں کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔

صحافی سلیم خالق نے انکشاف کیا کہ سلمان بٹ کی بطور سلیکشن کنسلٹنٹ برطرفی میں محمد حفیظ کی مخالفت کا اہم کردار رہا۔

ان کے بقول ٹیم ڈائریکٹر نے آسٹریلیا میں خبر ملتے ہی پی سی بی کے اعلیٰ حکام سے فیصلہ تبدیل کرنے کو کہا اور بار بار اصرار بھی کرتے رہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے قبل کے معاملے مزید سنگین ہوتا۔ چیف سیلیکٹر وہاب ریاض نے فیصلہ بدل لیا۔

جہاں کچھ مبصرین سلمان بٹ کے تقرر کے خلاف تھے، وہیں چند نے اسے ایک اچھا قدم قرار دیا تھا۔

صحافی عامر ملک نے ایک طرف تو سلمان بٹ کی بورڈ میں تقرری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ تو اچھا ہے۔ لیکن جب ایک بینک میں چوری کرنے والے ملازم کو رکھوالی پر نہیں رکھا جاسکتا تو کرکٹ میں خیانت کرنے والے فرد کو کس طرح رکھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تقرر سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کو سوچنا چاہیے تھا کہ اس سے سلمان بٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا کیوں کہ ایک مرتبہ پھر لوگ ان کے خلاف ہوجائیں گے ۔

ایک اور صحافی عمران صدیق کے خیال میں سلمان بٹ کو موقع ضرور ملنا چاہیے تھا کیوں کہ ان سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا وہ کاٹ چکے ہیں۔

سینئر صحافی شاہد ہاشمی نے بھی کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب مجرمانہ شہرت کے حامل افراد ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں تو سلمان بٹ کیوں نہیں جو اپنی سزا پوری کرچکے ہیں۔

ہیز ہارون نامی صارف نے بھی سلمان بٹ کی تقرری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ سلمان بٹ کی کھیل سے متعلق انڈر اسٹینڈنگ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

تاہم علی چشتی نامی صارف نے سلمان بٹ کے ساتھ ساتھ وہاب ریاض اور کامران اکمل کی تقرری پر سخت تنقید کی اور تینوں کی ایک ساتھ موجودگی پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے وہاب ریاض کی ایک مبیینہ تصویر پوسٹ کی جس میں وہ اسپاٹ فکسر مظہر مجید سے مبینہ طور پر پاؤنڈز سے بھری جیکٹ لے کر پہن رہے ہیں جب کہ انہوں نے سلمان بٹ اور کامران اکمل کے متنازع کریئر کی جانب بھی توجہ دلائی۔