ماسکو اور واشنگٹن میں پیر کو الگ الگ مذاکرات ہو رہے ہیں جن کے ایجنڈے پر روس اور یوکرین کی سرحد پر جاری تنازع سرفہرست ہے۔ ان مذاکرات میں روسی صدر ولادی میر پوٹن ماسکو میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا اور امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں جرمن چانسلر اولاف شولز کی میزبانی کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن اور میکرون نے اتوار کو ٹیلی فون پر بات کی جس میں یوکرین کی سرحدوں پر روسی فورسز کے مسلسل اضافے کے پیش نظر جاری سفارتی اور یوکرین کو تحفظ فراہم کرنےکی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
میکرون نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی ترجیح روس کے ساتھ بات چیت اور کشیدگی میں کمی لانا ہے۔ پوٹن سے ملاقات کے بعد، وہ منگل کو یوکرین کے راہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لیے کیف کا سفر کرنے والے ہیں؛ جب کہ جرمن چانسلر شولز اگلے ہفتے ماسکو اور کیف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہیں۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے مطابق بات چیت کا یہ دور ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ یوکرین کو خبردار کر چکا ہے کہ اس پر روسی حملہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
SEE ALSO:
روس یوکرین پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے: امریکہامریکہ روس کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، پوٹن کا الزامیوکرین کشیدگی : برطانوی وزیراعظم کیف پہنچ گئے، روس امریکہ وزرائے خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہروس یوکرین تنازع میں شدت دنیا کے لیےخطرناک ثابت ہو سکتی ہے: ماہرینسلیوان نے اتوار کو این بی سی ٹی وی کے "میٹ دی پریس" شو میں کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ روس نے یوکرین پر فوجی کارروائی کے لیے انتظامات مکمل کر لیے ہیں اور ہم جوابی تیاری کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
"فاکس نیوز سنڈے" کو ایک الگ انٹرویو میں، سلیوان نے کہا کہ روس کسی بھی روز یوکرین کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے، یا اس میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس حکام کا اندازہ ہے کہ ماسکو نے اپنی حملہ آور فورس کا 70 فی صد حصہ وہاں لگا دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ روس کے حملے سے یوکرین کا بہت زیادہ جانی نقصان ہو گا، لیکن روس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی اور امریکہ روس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہے۔
تاہم سلیوان کا کہنا تھا کہ امریکہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے اپنے اور اس کے 29 رکنی نیٹو اتحادیوں کےاقدامات سے منسلک سیکیورٹی خدشات پر بات چیت کی خواہش رکھتا ہے۔جس میں مخصوص فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نظامو ں کی تنصیب شامل ہے۔ فوجی مشقوں میں شفافیت شامل ہے اور اس میں اعتماد سازی میں اضافے اور ایسے واقعات سے بچنے کے اقدامات شامل ہیں جن سے تنازع بڑھنے یا تخمینے لگانے میں غلطی کا امکان ہو۔
تاہم انہوں نے صدر پوٹن کے یوکرین کو نیٹو کا رکن نہ بنانے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیکیورٹی کے بنیادی اصولوں پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں جن میں نیٹو کے دروازے ان ملکوں کے لیے کھولنا بھی شامل ہے جو اس کی رکنیت کی شرائط پر پورے اترتے ہوں۔
واشنگٹن نے روسی حملے کی صورت میں یوکرین میں اپنی فوج بھیجنے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم، امریکہ نے کیف حکومت کو 50 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار اور دفاعی میزائل بھیجے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے کا امکان نہیں۔ میکرون
میکرون نے اتوار کے روز یوکرین پر روسی حملے کا امکان مسترد کرتے ہوئے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدوں پر اپنی افواج کا اجتماع کرنا ممکنہ طور پر کریملین کی اس حکمت علمی کا حصہ ہے جس کا مقصد مغرب سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنا ہے۔
ماسکو پرواز سے قبل فرانسیسی جریدے ڈی ڈیمانچ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں میکرون نے کہا کہ اس دورے کامقصد ممکنہ طور فوجی کارروائی کو روکنا ہے، جس کے بعد ہم کشیدگی میں کمی لانے کی شرائط پر بات چیت کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس تنازع کا کوئی تاریخی حل نکالیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کے مطابق یوکرین کی سرحد پر فوجی قوت بڑھا کر روس نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کے معاملے پر روسی مؤقف تسلیم کرانے کے لیے کسی بھی حد تک دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اگرچہ روس کے عزائم واضح نہیں ہیں لیکن ماضی میں اس کا طرزِ عمل تشویش کا باعث ضرور ہے۔
(خبر کا کچھ مواد اور رائیٹرز سے لیا گیا ہے)