پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپینوں کی کشمیر سے متعلق ٹوئٹس پر بھارت میں شدید ردعمل

پاکستان میں کاروبار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپینوں کے کشمیریوں کی آزادی کے حق میں ٹوئٹس پر بھارت میں شدید ردعمل ہوا ہے۔ احمد آباد میں مظاہرین ہنڈے موٹرز کمپنی کے شو روم کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

یہ تنازع اتوار کے روز اس وقت شروع ہوا جب چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستانی شاخوں نے پاکستان میں منائے جانےوالے یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر  کشمیر کی مسلم آبادی کی آزادی کی خواہش کے حق میں ٹوئٹس کیے۔

بھارت میں کاروبار کرنے والی چند بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جن میں ہنڈے، کے ایف سی اور ڈامینوز پیزا شامل ہیں، ملک میں جاری اس شدید ردعمل پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں جو پاکستان میں کام کرنے والی ان کی ذیلی کمپنیوں کی جانب سے نئی دہلی سے کشمیریوں کی مبینہ آزادی کےحق میں ٹویٹس کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔

ان ٹوئٹس پر پائی جانے والی برہمی کو سیول تک میں محسوس کیا جا رہا ہے اور وہاں وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کو منگل کے روز اپنے بھارتی ہم منصب سے افسوس کا اظہار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

دوسری جانب بھارت میں جنوبی کوریا کے سفیر کو پیر کے روز وزارت خارجہ طلب کر کےانہیں بھارتی حکومت کی شدید برہمی سے آگاہ کیا گیا۔

اگرچہ بھارت میں کاروبار کرنے والی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے معافی مانگ لی گئی ہے، لیکن بھارتی پارلیمنٹ اور حکومتی ارکان اسے "بے دلی سے مانگی جانے والی اور خلوص سے عاری" معافی قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں۔

یہ تنازع اتوار کے روز اس وقت شروع ہوا جب چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستانی شاخوں نے پاکستان میں منائے جانےوالے یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر کشمیر کی مسلم آبادی کی آزادی کی خواہش کے حق میں ٹوئٹس کیے۔

کشمیر کی حیثیت پاکستان اور بھارت کے قیام سے متنازع چلی آ رہی ہے اور دونوں ملک اس تنازع پر تین خون ریز جنگیں لڑ چکے ہیں۔

یہ ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب 'ہنڈے پاکستان' کے آفیشل ٹوئٹرہینڈل کی طرف سے ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ" آئیے ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور ایسے میں متحد ہوکر ان کے ساتھ کھڑے ہوں جب وہ آزادی کے لیے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں"۔

اس پوسٹ کی اشاعت نے بھارت میں فوری طور پر ایک ہنگامہ برپا کیا۔ ایک جانب سوشل میڈیا صارفین نے ہنڈے کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیااور دوسری جانب حکومت اور اراکینِ پارلیمنٹ نے فوری طور پر معافی مانگنے کے مطالبے شروع کر دیے۔

ہنڈے کی بھارتی شاخ نے ایک بیان جاری کر کے خود کو پاکستانی ہنڈے شاخ کی ٹوئٹ سے یہ کہتے ہوئے الگ کر لیا کہ پالیسی کے معاملے میں ہنڈے موٹر کمپنی کسی مخصوص علاقے میں سیاسی یا مذہبی مسائل پر تبصرہ نہیں کرتی ۔

اس نے اپنے بیان میں کہا کہ، "یہ واضح طور پر ہنڈے موٹرز کی پالیسی کے خلاف ہے کہ پاکستان میں آزادانہ ملکیت والے ڈسٹری بیوٹر نے اپنے اکاؤنٹس سے کشمیر کے متعلق ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کیں جس کا وہ مجاز نہیں تھا۔ "ہمیں اس غیر سرکاری سوشل میڈیا سرگرمی سے بھارت کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر شدید افسوس ہے۔"

ہنڈے موٹرز کی مالک کمپنی نے بھی یہ کہتے ہوئے اس بیان کی حمایت کی، "جب اس صورت حال پرہمیں توجہ دلائی گئی تو ہم نے ڈسٹری بیوٹر کو سختی سے آگاہ کیا کہ اس کا اقدام نامناسب تھا۔ ان سوشل میڈیا پوسٹس کو ہٹا دیا گیا ہےاور ہم نے ایسے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ مستقبل میں دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہونے پائے۔"

کمپنی کےمالک کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہماری ذیلی کمپنی، ہنڈے موٹرز انڈیا کا پاکستان کے ڈسٹری بیوٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور ہم پاکستانی ڈسٹری بیوٹر کی اس غیر مجاز اور غیر کاروباری سوشل میڈیا سرگرمی کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔"

ہنڈے موٹرز کی طرح بھارت میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں ' کےایف سی' اور ڈامینوز پیزا 'کی بھارتی شاخوں نے بھی اسی طرح کی سوشل میڈیا پوسٹس پر معذرت کی جوان کمپنیوں کی پاکستانی شاخوں کے باضابطہ اکاؤنٹس پر شائع ہوئی تھیں۔

فرائیڈ چکن ڈائنیسٹی کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ "ہم اس پوسٹ کے لیے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں جو ملک سے باہر 'کے ایف سی' سوشل میڈیا چینلز پر شائع ہوئی ۔" ٹوئٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ"ہم بھارت کی عزت اور احترام کرتے ہیں، اور فخر کے ساتھ تمام بھارتیوں کی خدمت کرنے کے اپنے عہد پر قائم ہیں۔"

ڈامینوز پیزا کے پاکستانی اکاؤنٹ سے جاری کی گئی ایک ایسی ہی ٹوئٹ کے ردعمل میں ڈامینوز کے بائیکاٹ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

بدھ کواپنی ایک پوسٹ میں ڈامینوز نے کہا کہ، "یہ وہ ملک ہے جسے گزشتہ 25 برسوں سے اپنا گھر بنا لیاہے، اور ہم یہاں اس کی میراث کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔ "

جاپانی کار ساز کمپنی سوزوکی کی بھارت میں ذیلی کمپنی ماروتی سوزوکی بھی اس تنازعے کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ اس کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہاگیا ہے کہ "ہمارا دنیاکے کسی بھی حصے میں کسی بھی سیاسی یا مذہبی رجحان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان موضوعات پر ہمارے ڈیلرز یا کاروباری ساتھیوں کی طرف سے اس طرح کی بات چیت نہ تو ہماری کمپنی کی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی ہماری طرف سے انہیں اس کا اختیار ہے"۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے معذرتوں کے باوجود بھارتی حکومت اور اس کے بہت سے قانون ساز مطمئن نہیں ہوئے۔

بھارتی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدے دار وجے چوتھائی والے نے کہا ہے کہ "بھارت ایسی کوئی بے ہودگی برداشت نہیں کرے گا"۔

بھارتی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی ایک راہنما پرینکا چترویدی نے ہنڈے پر زور دیا کہ وہ "لفاظی کے بجائے واضح طور پر افسوس کا اظہار کرے، باقی سب غیر ضروری ہے"۔