رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ریئل اسٹیٹ کانفرنس؛ 'اس کا مقصد شناخت کو ختم اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے'


یہ جموں و کشمیر میں منعقد کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی۔ جس میں بھارت کے کئی بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی تھی۔ (فائل فوٹو)
یہ جموں و کشمیر میں منعقد کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی۔ جس میں بھارت کے کئی بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی تھی۔ (فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے علاقے میں انڈسٹری ڈویلپمنٹ اسکیم یعنی صنعتی ترقی کے منصوبوں کے لیے 44 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہو چکی ہیں اور یہ رقم جلد 60 ہزار کروڑ روپے تک پہنچنے کی امید ہے۔

حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کے سرمائی صدر مقام جموں میں حالیہ دنوں میں کیے جانے والے 'ریئل اسٹیٹ سمِٹ' کے دوران اس کے اور بھارت کےسرکردہ ریئل اسٹیٹ سرمایہ کاروں کےدرمیان 18 ہزار 300 کروڑ روپے کی مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔

یہ جموں و کشمیر میں منعقد کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تقریب تھی۔ جس میں بھارت کے کئی بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی تھی۔ جب کہ بھارت کے وفاقی وزیر برائے مکانات و شہری ترقی ہردیپ سنگھ پوری مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے۔

مفاہمت کی جن 39 یاداشتوں پر دستخط کیے گیے ان کے تحت جموں و کشمیر میں 19 رہائشی، 8 تجارتی، 4 تواضع، 3 تین بنیادی ڈھانچے، تفریح اور 2 مالیات سے جڑی سرمایہ کاری کے منصوبے شامل ہیں۔

وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ اس سے جموں و کشمیر کی صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ وفاق کے زیرِ انتظام علاقے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے جس سے مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں کو فائدہ ہوگا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ایک اور تقریب آئندہ برس مئی میں ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں منعقد ہو گی۔

وفاقی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے مقامی حکومت پر زور دیا کہ وہ ہر برس ‘ورلڈ اکنامک فورم’ کہلانے جانے والے اجلاس کے طرز پر جموں و کشمیر میں کنکلیو کا اہتمام کرے۔

انہوں نے یقین دلایا کہ اس سلسلے میں علاقے کی انتظامیہ کو وفاقی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا۔

ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ ملک میں روزگار پیدا کرنے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے اور اس سے اس کی مجموعی معیشت پر غیر معمولی مثبت اثر پڑ رہا ہے۔

بھارتی کشمیر میں نایاب پرندوں کے ڈیرے
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:16 0:00

حکومت کی جانب سے ممکنہ سرمایہ کاروں کو اراضی کی ملکیت سمیت دیگر مراعات کی پیشکش پر کئی سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ دراصل مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔

حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا کہ حکومت کے اصل ارادے ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ جہاں ایک طرف بودھ اکثریتی لداخ کے لوگوں کو اراضی، نوکریوں، ڈومیسائل قوانین اور تشخص کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب جموں و کشمیر کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو اگست 2019 میں غیر قانونی طور پر منسوخ کیا گیا تھا تاکہ بھارت کی اس واحد مسلم اکثریتی ریاست کے عوام کو بے اختیار و بے دخل کیا جا سکے۔

محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے وسائل کی ڈھٹائی سے لوٹ مار اور فروخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا واحد مقصد شناخت کو ختم کرنا اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی کی طرف سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور انہیں براہِ راست مرکز کے زیر کنٹرول علاقے جموں و کشمیر اور لداخ قرار دیا گیا۔

اس متنازع فیصلے کے بعد سے لے کر اب تک بھارتی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے جموں و کشمیر میں کئی نئے قوانین متعارف کرائے یا پھر پہلے سے موجود قوانین اور ضابطوں میں رد و بدل کیا۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے اکتوبر 2020 میں جموں و کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کرکے بھارت کے تمام شہریوں کو علاقے میں اراضی خریدنے اور دیگر منقولہ جائیداد کا مالک بننے کا اہل بنا دیا تھا۔

ترمیم شدہ قوانین کے تحت زرعی اراضی کو اگرچہ غیر زرعی مقاصد کے لیے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر تعلیمی ادارے، اسپتال اور دوسری طبی سہولیات تعمیر کی جا سکتی ہیں۔

کشمیر: برف کے گولے اور پٹاخے پھینک کر منایا جانے والا انوکھا عرس
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

نیز زمین کے مالک کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ وہ اپنی اراضی کسی غیر کاشت کار کو فروخت کر سکتا ہے یا اس کا تبادلہ کر سکتا ہے جس کے بعد مذکورہ شخص اس اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ البتہ ایک تازہ ترمیم کے تحت اب زرعی زمین کو غیر زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ پانچ اگست 2019 سے پہلے ریاست میں رائج قوانین کے تحت ہر قسم کی اراضی اور غیر منقولہ جائیدادوں پر صرف اس کے پشتنی یا مستقل باشندوں ہی کو مالکانہ حقوق حاصل تھے اور وہی اسے فروخت اور خرید سکتے تھے۔

اس سلسلے میں جموں و کشمیر میں 1927 سے نافذ قانونِ شہریت کے تحت جاری کیے جانے والی اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکٹ کے بغیر زمین یا غیر منقولہ جائیداد کاکوئی بھی سودا محکمہ مال میں درج کرایا جا سکتا تھا۔ اس کا انتقال کیا جاسکتا تھا اور نہ محکمۂ مال سے اس کی توثیق کرائی جا سکتی تھی۔

نیز جموں و کشمیر میں متعارف کرائے گئے نئے اقامتی قانون یا ڈومیسائل لا کے تحت جموں و کشمیر میں سات سے 15 سال تک رہنے والا کوئی بھی شخص ڈومیسائل سرٹیفکٹ یعنی مستقل اقامت کی سند حاصل کرنے کا حق دار ہے۔

یہ سند اسے جموں و کشمیر میں سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل بنادیتی ہے۔

اپریل 2020 میں بھارت کی وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کیے گیے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق کوئی بھی شخص جو جموں وکشمیر میں 15 سال تک رہائش پذیر رہا ہو یا جس نے یہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں یہاں قائم کسی ادارے سے حصہ لیا ہو، وہ ڈومیسائل سرٹیفکٹ کا حق دار اور جموں وکشمیر میں سرکاری نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا اہل ہو گا۔

سرینگر: روزگار کے لیے آنے والے بھارتی مزدوروں کو جان کا خطرہ درپیش
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00

تاہم مرکزی حکومت کے وہ حکام، افسران، بینک ملازمین، قومی سطح کی جامعات کے حکام وغیرہ جنہوں نے کشمیر میں 10 برس تک ملازمت کی ہو، کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں مذکورہ افراد کے بچے بھی اقامتی سند حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

جموں و کشمیر ریلیف اینڈ ری ہیبلٹیشن کمشنر (مہاجرین) کے ذریعہ تارکین وطن کے طور پر رجسٹرڈ افراد کو بھی اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔

اسرائیلی ماڈل لانے کا الزام

جموں و کشمیر کی علاقائی یا بھارت کے قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں نے ڈومیسائل لا، قوانینِ اراضی میں ترامیم اور اضافی شقوں کو شامل کرنے اور کئی دوسرے قوانین نافذ کرنے کے بھارت کی حکومت کے اقدامات کو یک طرفہ، من مانا، غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر ان کے خلاف قانونی لڑائی لڑنے کا اعادہ کیا ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ جموں و کشمیر میں کئی دہائیوں سے لاگو متعدد قوانین میں گزشتہ 28 ماہ کے دوران کی جانے والی ترامیم اور بعض نئے قوانین کے نفاذ کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنا ہے۔

ان کے مطابق بھارت کشمیری مسلمانوں کے ساتھ وہی دہرانا چاہتا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کو اُن کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے کے لیے کیا ہے۔ پاکستان نے بھی جموں و کشمیرکے لیے نئے ڈومیسائل لا، زرعی اور دوسرے قوانین میں ان ترامیم پر اسی طرح کے خدشات و تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیر کی جماعتوں کے اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ محمد عمر فاروق نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریئل اسٹیٹ سمٹ کے انعقاد کا مقصد بھی وہی ہے جو جموں و کشمیر میں نئے قانونِ اقامت یا زرعی قوانین میں ترامیم کرنے کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ایجنڈا ہے جس پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد ہو رہا ہے جس کا عالمی برادری کو سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی نے بھی ریئل اسٹیٹ کنکلیو جیسی سرگرمیوں کی مخالفت کی ہے۔

تاہم ان دونوں جماعتوں نے انہیں آر ایس ایس یا بی جے پی کے مبینہ سیاسی ایجنڈے سے نہیں جوڑا ہے بلکہ ان کا استدلال ہے کہ بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری سے مقامی تاجروں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی۔

ان کے بقول اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس سے جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا ازالہ ہوگا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے، جن کا تعلق جموں و کشمیر سے ہی ہے، کہا کہ مقامی تاجروں کو خائف نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کار یہاں منافع کمانے کے لیے نہیں بلکہ بزنس کا کلچر پیدا کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ وہ بھی بلا شبہ تاجر ہیں لیکن جہاں تک وہ جانتے ہیں، وہ یہاں بزنس کا کلچر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جن خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ بے بنیاد ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاحوں کی واپسی​
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:25 0:00

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے لوگوں کو یقین دلایا کہ ریئل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری سے جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

انہوں نے ایسے نظریات کا پرچار کرنے والوں پر الزام لگایا کہ وہ لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کی مکروہ کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مقامی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جموں و کشمیر میں پن بجلی پاور، ٹنل اور شاہراہوں کے منصوبوں سے روزگار کے مواقع میسر ہوئے ہیں۔ ریئل اسٹیٹ سرمایہ کاری کے سلسلے میں لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ افراد سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو اکسا رہے ہیں جو اس راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں، ان کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی کے سفر میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جائے اور خلل کی دیوار کو مسمار کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چند عناصر نہیں چاہتے کہ جموں و کشمیر بھی بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح ترقی کرے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو برس کے دوران جموں و کشمیر میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو دور رس مُثبت نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG