ٹی وی چینلزکے مارننگ شوز ملالہ کے ذکر سے خالی نہ تھے جبکہ اخبارات بھی ملالہ سے جڑی تمام خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ پھر بدھ کو بھی اس حوالے سے مسلسل خبریں آتی رہیں
سوات میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی سے متعلق خبریں بدھ کو بھی ملکی میڈیا میں نمایاں رہیں جبکہ منگل کو بھی پورا میڈیا اس خبرکو خصوصی کوریج دیتا رہا ۔ ٹی وی چینلزکے مارننگ شوز ملالہ کے ذکر سے خالی نہ تھے جبکہ اخبارات بھی ملالہ سے جڑی تمام خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ پھر بدھ کو بھی اس حوالے سے مسلسل خبریں آتی رہیں ۔
میڈیا سے ہٹ کر بات کریں تو بدھ کو قومی اسمبلی میں ملالہ پر حملے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی گئی۔ دوسری جانب یہ معاملہ اس وقت مزید گرم ہوگیا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے اسپتال جاکر ملالہ کی عیادت سے متعلق خبریں منظر عام پر آئیں۔
ادھر حکومت نے اس واقعہ پر ایکشن لیتے ہوئے ملالہ کے آبائی شہر سے 200سے زائد مشتبہ افراد کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے رات بھر علاقے کے مختلف گھر وں میں چھاپے مارے اور تلاشی لی۔ حراست میں لئے جانے والے افراد میں اسکول وین کے ڈرائیور عثمان کو بھی شامل تفتیش کرلیا ہے جبکہ چوکیدار کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا۔
ملک بھر میں آج ملالہ کے لئے دعائیں بھی کی جاتی رہیں ۔لاہور کی مساجد میں ملالہ کی صحتیابی کے لئے خصوصی دعائیں بھی مانگی گئیں، جبکہ درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں نماز فجر کے بعد ملالہ کے لئے قرآن کی تلاوت کی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے علاوہ ملک بھر کے بے شمار اسکولوں میں ملالہ کی درازی عمر اور مکمل و جلد صحت یابی کے لئے دعائیہ تقریبات ہوئیں۔ حتیٰ کہ سکھر سمیت سند ھ کے کئی علاقوں میں خواجہ سراوٴں نے بھی ملالہ یوسف زئی کے لئے دعائیں مانگیں۔ سکھر کے علاقے شمس آباد میں صنم ،مدیحہ اورصائمہ نامی خواجہ سراؤں کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی جیسے ہونہار اور معصوم بچوں پر حملے کر نا بزدلی ہے جس کی وہ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
غیر ملکی اخبارات اور خبررساں اداروں نے بھی اپنی آج کی اشاعت میں ملالہ کو بڑھ چڑھ کر خراج تحسین پیش کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ملالہ کو جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت قرار دیا جبکہ ’نیویارک ٹائمز‘ نے ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں طالبان کے خلاف جرات آمیز موقف اختیار کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔
’گارجین‘ کا کہنا ہے کہ ملالہ نے ایسے وقت میں لڑکیوں کے اسکولوں پر حملوں کے خلاف آوازاٹھائی جب کوئی اس کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ملالہ کو بہادر لڑکی قرار دیا۔ سی این این نے ملالہ کے کام کو’ بڑا کارنامہ ‘انجام دیا۔روزنامہ ’ٹیلی گراف‘ نے ملالہ کی کوششوں کی تعریف کی۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی عالمی ممالک اورایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید مذمت کی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بدھ کو صدر آصف علی زرداری سے فون پر رابطہ کیا اور ملالہ پر حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے حملے پر تشویش اور افسوس کا اظہار بھی کیا۔
میڈیا سے ہٹ کر بات کریں تو بدھ کو قومی اسمبلی میں ملالہ پر حملے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی گئی۔ دوسری جانب یہ معاملہ اس وقت مزید گرم ہوگیا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے اسپتال جاکر ملالہ کی عیادت سے متعلق خبریں منظر عام پر آئیں۔
ادھر حکومت نے اس واقعہ پر ایکشن لیتے ہوئے ملالہ کے آبائی شہر سے 200سے زائد مشتبہ افراد کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے رات بھر علاقے کے مختلف گھر وں میں چھاپے مارے اور تلاشی لی۔ حراست میں لئے جانے والے افراد میں اسکول وین کے ڈرائیور عثمان کو بھی شامل تفتیش کرلیا ہے جبکہ چوکیدار کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا۔
ملک بھر میں آج ملالہ کے لئے دعائیں بھی کی جاتی رہیں ۔لاہور کی مساجد میں ملالہ کی صحتیابی کے لئے خصوصی دعائیں بھی مانگی گئیں، جبکہ درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں نماز فجر کے بعد ملالہ کے لئے قرآن کی تلاوت کی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے علاوہ ملک بھر کے بے شمار اسکولوں میں ملالہ کی درازی عمر اور مکمل و جلد صحت یابی کے لئے دعائیہ تقریبات ہوئیں۔ حتیٰ کہ سکھر سمیت سند ھ کے کئی علاقوں میں خواجہ سراوٴں نے بھی ملالہ یوسف زئی کے لئے دعائیں مانگیں۔ سکھر کے علاقے شمس آباد میں صنم ،مدیحہ اورصائمہ نامی خواجہ سراؤں کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی جیسے ہونہار اور معصوم بچوں پر حملے کر نا بزدلی ہے جس کی وہ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
غیر ملکی اخبارات اور خبررساں اداروں نے بھی اپنی آج کی اشاعت میں ملالہ کو بڑھ چڑھ کر خراج تحسین پیش کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ملالہ کو جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت قرار دیا جبکہ ’نیویارک ٹائمز‘ نے ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں طالبان کے خلاف جرات آمیز موقف اختیار کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔
’گارجین‘ کا کہنا ہے کہ ملالہ نے ایسے وقت میں لڑکیوں کے اسکولوں پر حملوں کے خلاف آوازاٹھائی جب کوئی اس کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ملالہ کو بہادر لڑکی قرار دیا۔ سی این این نے ملالہ کے کام کو’ بڑا کارنامہ ‘انجام دیا۔روزنامہ ’ٹیلی گراف‘ نے ملالہ کی کوششوں کی تعریف کی۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی عالمی ممالک اورایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید مذمت کی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بدھ کو صدر آصف علی زرداری سے فون پر رابطہ کیا اور ملالہ پر حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے حملے پر تشویش اور افسوس کا اظہار بھی کیا۔