|
ویب ڈیسک — لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرنے والی نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ایکٹوسٹ ملالہ یوسف زئی نے مسلم رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ افغان طالبان کی جانب سے خواتین کو تعلیم اور روزگار سمیت دیگر بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے اقدامات کے کسی جواز کو تسلیم نہ کریں۔
ملالہ یوسف زئی نے اسلام آباد میں اتوار کو ’مسلم کمیونیٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع' کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو حقوق سے محروم کرنے کے لیے ہمارے مذہب اور عقیدے کا استعمال کیا جا رہا ہے جسے ہمیں مل کر روکنا ہوگا۔
اسلام آباد میں ہونے والی اس کانفرنس کا اہتمام حکومتِ پاکستان اور مسلم ورلڈ لیگ کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔
اس کانفرنس میں 45 زائد مسلم اور دیگر ممالک کی نمائندگی کرنے والے 150 سے زیادہ مندوبین شریک ہوئے ہیں جن میں وزرا، سفارت کار، اسکالرز اور ماہرینِ تعلیم بھی شامل ہیں۔
منتظمین کے مطابق کانفرنس میں یونیسیف، یونیسکو، ورلڈ بینک اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے نمائندے بھی شریک ہوئے ہیں۔
مسلم ورلڈ لیگ یا رابطہ عالم اسلامی سعودی عرب میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حق سے متعلق اس کانفرنس کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور مختلف ممالک کے اسکالرز نے بھی خطاب کیا تھا۔
تاہم ان رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں افغانستان کے ذکر سے گریز کیا جو دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جہاں طالبان کی سخت گیر حکومت نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اتوار کو کانفرنس سے خطاب میں ملالہ یوسف زئی نے افغانستان میں طالبان حکومت کے تحت لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے دیگر حقوق پر پابندیوں پر بات کی ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد پورا نہیں ہوگا اگر ہم افغان لڑکیوں کی تعلیم کی بات نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغان طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کے لیے 100 سے زائد قوانین بنائے ہیں جو تعلیم کے حق، اظہار رائے کی آزادی، ملازمت اور روزگار تک رسائی جیسے بنیادی حقوق سے انہیں محروم کرنے کے لیے جاری کیے گئے ہیں اور جس کا مقصد عملی زندگی میں خواتین کا کردار ختم کرنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملالہ یوسف زئی نے طالبان حکومت کے اقدامات کو ’جینڈر اپارتھائیڈ‘ یعنی صنفی امتیاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کو افغانستان میں قید وبند اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان کے بقول ’’سادہ لفظوں میں کہا جائے تو طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ طالبان نے جرائم کو مذہب اور کلچر کے پیچھے چھپاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں دو ٹوک انداز میں یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے ایسے اقدامات میں کچھ بھی اسلامی نہیں ہے بلکہ یہ پالیسیاں اسلام کے خلاف ہیں۔ طالبان انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس کا کوئی مذہبی یا کلچرل جواز نہیں ہوسکتا۔
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کی افغان حکومت نے خواتین پر تعلیم و روزگار کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے افغانستان کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن افغان حکومت کی جانب سے کوئی بھی شریک نہیں ہوا۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان کی دعوت سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تاہم طالبان حکام انسانی حقوق اور خواتین سے متعلق پابندیوں پر ہونے والی تنقید کے جواب میں اصرار کرتے ہیں کہ ان کی پالیسیاں مقامی کلچر اور اسلامی شریعت کے مطابق ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان: لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس، 'دعوت کے باوجود افغانستان سے کوئی شریک نہیں ہوا'ملالہ یوسف زئی نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عملی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بیانات سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ تسلیم کریں کہ طالبان نے افغانستان میں جینڈر اپارتھائیڈ (سیاسی اور حکومتی سطح پر صنفی امتیاز کا نظام) قائم کر دیا ہے اور ان کی حکومت کو تسلیم مت کریں اور ہم اپنے عقائد پر ان سے کوئی سمجھوتا نہ کریں۔
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ پاکستان میں سوا کروڑ سے زائد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں جو دنیا میں تعلیم سے محروم لڑکیوں کی سب سے زیادہ تعداد میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق یہ کانفرنس پاکستان میں ہورہی ہے اور یہاں اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ملالہ نے کہا کہ ہر لڑکی کا حق ہے وہ 12 سالہ بنیادی تعلیم تک رسائی حاصل کرے اور ہمیں مل کر انہیں یہ حق دلانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہییں۔