لاپتا طیارے کے پاکستانی حدود میں شواہد نہیں ملے: دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم

ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوئی اور نہ ہی راڈار پر کوئی معلومات آئیں۔
پاکستان نے کہا ہے کہ ملائیشیا کے لاپتا مسافر طیارے کے اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے اور اس بارے میں ملائیشیا کو مطلع کر دیا گیا ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اتوار کو ایک نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ ملائیشیا نے خطے اور دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی لاپتا طیارے کی تلاش میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

’’ پاکستان میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوئی اور نہ ہی راڈار پر معلومات آئیں ہیں۔ ایئر ٹریفک کنٹرول ایک دوسرے سے ہر قسم کی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ (ہوائی جہاز) نظر آتا ہے تو ضرور بتائیں گے۔‘‘

آٹھ مارچ کو ملائیشیا کے ایک بوئنگ 777 ہوائی جہاز نے عملے اور مسافروں سمیت 239 افراد کو بیجنگ لے جانے کے لیے کوالالمپور سے اڑان بھری لیکن پرواز کے ایک گھنٹے بعد ہی اس کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا۔

آٹھ روز سے اس طیارے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں جب کہ 25 ملک اس کی تلاش کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

ملائیشیئن حکام طیارے کے اغوا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کر چکے ہیں جب کہ بعض ذرائع ابلاغ میں یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا کہ طیارہ افغانستان، پاکستان یا قازقستان بھی لے جایا جاسکتا ہے۔

تاہم پاکستان میں فضائی ٹریفک پر نظر رکھنے والے ماہرین نے ایسے کسی امکان کو مسترد کیا ہے۔

ایئرٹریفک کنٹرولر آصف رسول نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان آنے کے لیے اس طیارے کو کم ازکم تین ملکوں کی فضائی حدود سے گزرنا پڑتا اور وہ کسی نہ کسی ملک کے راڈار میں ضرور آتا۔

’’اگر وہ وہاں سے اڑا ہوگا اور افغانستان آکے قازقستان چلا گیا تو اسے تقریباً سات، آٹھ ملکوں سے گھوم کر جانا پڑتا اگر ہائی سی سے بھی جائے گا تب بھی اس کو تین ملکوں کی حدود سے تو گزرنا ہی تھا۔ ۔ ۔تو وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے راڈار میں تو اسے آنا چاہیے تھا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں یہ بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ مسافر طیارے کے مواصلاتی نظام میں کوئی فنی خرابی ہوئی اور یہ کہیں گر کر تباہ ہوا۔ لیکن ان کے بقول اس بارے میں کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔