’قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے باعث‘، مالدیپ میں ہنگامی حالات کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اعلان بحر ہند کےِ اس جزیرہ نما ملک کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کے روز کیا۔
اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع ہونے والے اس اعلان میں، وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام 30 روز تک نافذالعمل ہوگا۔
ملک کے آئین کی رو سے، مقننہ کی منظوری سے صدر کو ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہنگامی حالات کے دوران، عارضی طور پر کچھ آئینی حقوق معطل رہیں گے۔ تاہم، آزادی اظہار، آزادی صحافت اور عدالت کی آزادانہ اور شفاف سماعتوں پر کوئی حرف نہیں آئے گا
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، اِس اعلان سے ایک ہی روز قبل، صدر عبداللہ یامین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ’تمام ضروری اقدامات اٹھائے گی جن سے لوگوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا‘۔
صدر نے کہا ہے کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک افراد امن اور یکجہتی کو سبوتاژ کرنے کے خواہاں ہیں، اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ ’سازشی عناصر سے چوکنہ رہیں‘۔
پیر کے روز صدارتی محل کے سامنے برآمد ہونے والے ایک آتشیں ہتھیار ناکارہ بنادیا گیا۔ رموٹ کنٹرول والا یہ دھماکہ خیز ہتھیار مقامی طور پر تیار کردہ بتایا جاتا ہے جسے محل کے باہر کھڑی گاڑی میں نصب کیا گیا تھا، جب کہ کسی نے اب تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
گذشتہ ماہ، اہل کاروں نے نائب صدر احمد ادیب کو گرفتار کیا تھا، جن پر ستمبر میں ایک ’اسپیڈ بوٹ‘ میں سوار صدر پر ہونے والے دھماکے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ صدر یامین زخمی نہیں ہوئے۔ تاہم، دھماکے کے نتیجے میں اُن کی بیوی اور دو دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔
پیر کے روز سری لنکا میں مالدیپ کے ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہے، جو اس دھماکے میں ملوث بتائے جاتے ہیں، جنھیں مالدیپ کے حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
اس سال کے اوائل میں تین ججوں کے ایک پینل نے سابق صدر محمد نشید کو 13 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اُنھوں نے سنہ 2012میں چیف جسٹس کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے۔
اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر نے نشید کے خلاف چارہ جوئی کو ’انتہائی نامناسب‘ قدم قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار کے بقول، مقدمے کے محرکات ’سیاسی نوعیت کے ہیں‘۔