مالکی کا دورہٴ کردستان، بارزانی سے ملاقات

مالکی اور بارزانی

دونوں فریق اپنی سرحدوں کے اندر نکلنے والے تیل کے وسائل اور خطوں پر کنٹرول کے حوالے سے نا اتفاقی کا شکار ہیں
عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نےاپنے ملک کے خود مختار کرد علاقے کا شاذ و نادر دورہ کیا ہے، جِس کا مقصد طویل عرصے سے جاری تنازعات کم کرنے میں مدد دینا ہے، جس کے باعث ملکی اتحاد کو خطرات لاحق ہیں۔

مسٹر مالکی کا طیارہ اتوار کے دِن عراقی کردستان کے علاقائی دارلحکومت، اربیل میں اترا۔ سنہ 2010کے بعد اِس خودمختار علاقے کا یہ اُن کا پہلا دورہ ہے۔ ایئرپورٹ پر علاقائی صدر مسعود بارزانی نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا۔

بعدازاں،
عراقی وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ نے عراقی کردستان کے وزیر اعظم نوشیروان بارزانی سے ملاقات کی۔

مسٹر مالکی کی بغداد میں قائم مرکزی حکومت اور عراقی کردستان کے تعلقات کئی برسوں سے تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ دونوں فریق اپنی سرحدوں کے اندر نکلنے والے عراقی تیل کے وسائل اورعلاقوں پر کنٹرول کے حوالے سے نااتفاقی کا شکار ہیں۔

مسٹر مالکی اور عراقی کرد حکام کے درمیان ہونے والی اس بات چیت کے نتیجے میں اِن معاملات پر کسی خاص پیش رفت کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔

عراقی کردستان نے حالیہ برسوں کے دوران غیر ملکی توانائی کی کمپنیوں ’ایکسان موبل‘، ’شیوران‘ اور ’ٹوٹل‘ کے ساتھ تیل کی تلاش سے متعلق معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس کے باعث اُس نے بغداد کی ناراضگی مول لی ہے، جس کے خیال میں اُس کے اختیار کے بغیر ایسے سمجھوتے نہیں کیے جا سکتے۔

کرد علاقہ پائپ لائن بچھانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے جس کے ذریعے، بغداد کے زیر کنٹرول پائپ لائن کے بغیر، وہ اپنےعلاقے سے دریافت ہونے والے تیل کو ہمسایہ ترکی کو برآمد کرنے کا ارادہ رکھتا گا۔

اپنی مرضی کی اِس پائپ لائن کی مدد سے عراقی کردستان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنی زیادہ تر بجٹ کے حوالے میں مرکزی حکومت سے موصول ہونے والی رقوم پر انحصار کم کر دے۔

عراقی کرد قائدین ایک طویل مدت سے اپنے اختیارات کو وسعت دینے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں جس میں شمالی عراق کے تیل سے مالامال وہ خطہ بھی شامل ہے جو تین خودمختار کرد صوبوں کے ساتھ واقع ہے۔ عراق ایسے مطالبوں کو مسترد کرتا آیا ہے۔

مسٹر مالکی پر عراق کے فرقہ وارانہ تناؤ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جہاں اکثریتی شیعہ آبادی اور اقلیتی سنی آبادی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے حالیہ مہینوں کے دوران ایک دوسرے کے خلاف حملے جاری رکھے ہیں۔