نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران، نیلسن منڈیلا نے 27برس جیل کاٹی۔ باہر آنے پر اُن کا پیغام ’درگزر کرو‘ تھا، جو ایک مثالی نصب العین کا درجہ حاصل کر گیا۔
جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی علامت اور جمہوری اقدار کو فروغ اور دوام بخشنے کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دینے والے ہیرو، نیلسن منڈیلا 95 برس کی عمر میں جمعرات کو جوہانسبرگ میں انتقال کر گئے۔
ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، صدر جیکب زوما نے کہا کہ مسٹر منڈیلا رحلت کر گئے ہیں۔ زوما کے الفاظ میں، ’ہماری قوم اپنے جلیل القدر بیٹے سے محروم ہوگئی ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ تدفین کی تمام رسومات سرکاری طور پر ادا کی جائیں گی، جب کہ قومی پرچم سر نگوں رہے گا۔
نیلسن مینڈیلا سنہ 1994 سے 1999 کے دوران جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر رہے ہیں۔
نیلسن منڈیلا، نسل پرستی کے خلاف جہدوجہد کی علامت رہے ہیں، جنھیں محبت میں لوگ ’مدیبا‘ کے نام سے بلاتے تھے، جو اُن کے قبیلے کا نام ہے۔ 18 جولائی کو وہ 95برس کے ہوگئے تھے۔
منڈیلا کے انتقال کی خبر آنے کے فوری بعد، جمعرات کی شام اپنے خطاب میں صدر براک اوباما نے جنوبی افریقہ کے نامور سپوت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے میدان کا ایک مثالی نام تھا، جو آج ہم میں نہیں رہا۔
امریکی صدر کے بقول، ’اِس کرہٴ ارض پر اس سطح کا جلیل القدر، بااثر، باہمت اور مثالی اقدار کا حامل انسان اب ہم میں نہیں رہا۔ ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوا کرتی ہیں‘۔
اِسی سال، 29 جولائی کو صدر براک اوباما نے نیلسن منڈیلا کے اہل خانہ سے نجی ملاقات کی تھی، جب اُنھوں نے افریقہ کا دورہ کیا۔ صدر اوباما نے سنیگال میں جنوبی افریقہ کے علیل صدر کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’منڈیلا دنیا کے لیے ہیرو ہیں، جِن کی میراث قائم رہے گی‘۔ اس موقع پر سنیگال کے صدر نے کہا کہ ، ’منڈیلا ایک شناخت کے علاوہ بھی ہم سب کے لیے بہت کچھ ہیں‘، جِن سےعالمی راہنما بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
منڈیلا کے احترام کا یہ عالم تھا کہ پریٹوریہ کے اسپتال میں، جہاں وہ داخل تھے، اُن کے پرستار، اپنے پرائے سارے کئی ہفتوں تک باہر کھڑے اُن کی جلد صحتیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔
انسان فانی ہے۔ لیکن، کوئی شبہ نہیں کہ منڈیلا جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ اُن کی ماں، لِی رُزینیا کے بقول، ’منڈیلا نے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں کردار ادا کیا‘۔
جب وہ اسپتال میں داخل تھے، باہر کھڑے 20عدد بچے اپنے محبوب قائد کے لیے ایک شعر پڑھتے رہے، جس میں مینڈیلا کے ملک و قوم پر احسانات بیان کیے گئے تھے۔ ادھر، جنوبی افریقہ کی اخباری تنظیم نے کتبہ اٹھا رکھا تھا جس میں درج تھا:‘Hold on, old man’
نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران، نیلسن منڈیلا نے 27برس جیل کاٹی۔ باہر آنے پر اُن کا پیغام ’درگزر کرو‘ تھا، جو ایک مثالی نصب العین کا درجہ حاصل کر گیا۔
اُن کے ہم عصر بتاتے ہیں کہ منڈیلا ایک سادہ، منکسرالمزاج اور گرمجوش انسان تھے۔
منڈیلا 18جولائی، 1918ء میں جنوبی افریقہ کے قصبے، میزو میں پیدا ہوئے۔
نسلی امتیاز کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں اُن کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اُنھیں 1993ء میں ’امن کا نوبیل انعام‘ دیا گیا۔ اُنھیں ’بھارت رتنا‘ تمغہ بھی دیا گیا تھا۔
اُن کی مشہور کتابوں میں:
Long Walk to Freedom اور How Far We Slaves Have Come
شامل ہیں۔
پچھلے برس سے اُن کی حالت ناساز رہتی چلی آ رہی تھی۔
اس سال جولائی میں پھیپھڑوں میں دوبارہ انفیکشن ہو جانے کے باعث، اُنھیں پریٹوریہ کے اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ کیپ ٹاؤن کے آرچ بشپ، تھابو ماکگوبا نے کہا تھا کہ، ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کے لیے ’پُر سکون اور بہتر اختتام‘ کی دعا کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ایک بیان میں، جنوبی افریقہ کی حکومت نے کہا کہ ملک کے سابق صدر کی حالت بدستور’تشویش ناک، لیکن مستحکم‘ ہے۔ بعدازاں، صدر زوما نے کہا تھا کہ نیلسن منڈیلا کی حالت 'گذشتہ رات سے بہتر‘ ہے۔ پھر صدر زوما نے منڈیلا کی تشویش ناک حالت کے پیشِ نظر افریقی ملک موزمبیق کا اپنا طے شدہ دورہ منسوخ کیا تھا۔
اہلِ خانہ کے دیگر افراد کے ہمراہ پریٹوریا کے 'میڈی کلینک ہارٹ ہاسپٹل' میں زیرِ علاج اپنے والد کی عیادت کے بعد، اُنھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ، ’میرے والد کی حالت ’انتہائی تشویش ناک ہے‘۔
مسٹر منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔
اُن کی جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ پر سفید فام نسل پرست حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد وہ 1994 ءمیں ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔
اپنی طویل اور پرامن سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کے باعث مسٹر منڈیلا پانچ کروڑ سے زائد آبادی والے ملک جنوبی افریقہ کے بیشتر باشندوں کے لیے ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں جب کہ بین الاقوامی برادری میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ افریقہ کے اپنے دورے کے دوران، امریکی صدر جزیرہ روبن گئے تھے، جہاں مسٹر منڈیلا تقریباً 20 سال تک قید رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، صدر اوباما نیلسن منڈیلا کو اپنے ’ہیروز‘ میں شمار کرتے تھے۔
ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، صدر جیکب زوما نے کہا کہ مسٹر منڈیلا رحلت کر گئے ہیں۔ زوما کے الفاظ میں، ’ہماری قوم اپنے جلیل القدر بیٹے سے محروم ہوگئی ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ تدفین کی تمام رسومات سرکاری طور پر ادا کی جائیں گی، جب کہ قومی پرچم سر نگوں رہے گا۔
نیلسن مینڈیلا سنہ 1994 سے 1999 کے دوران جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر رہے ہیں۔
نیلسن منڈیلا، نسل پرستی کے خلاف جہدوجہد کی علامت رہے ہیں، جنھیں محبت میں لوگ ’مدیبا‘ کے نام سے بلاتے تھے، جو اُن کے قبیلے کا نام ہے۔ 18 جولائی کو وہ 95برس کے ہوگئے تھے۔
منڈیلا کے انتقال کی خبر آنے کے فوری بعد، جمعرات کی شام اپنے خطاب میں صدر براک اوباما نے جنوبی افریقہ کے نامور سپوت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے میدان کا ایک مثالی نام تھا، جو آج ہم میں نہیں رہا۔
امریکی صدر کے بقول، ’اِس کرہٴ ارض پر اس سطح کا جلیل القدر، بااثر، باہمت اور مثالی اقدار کا حامل انسان اب ہم میں نہیں رہا۔ ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوا کرتی ہیں‘۔
اِسی سال، 29 جولائی کو صدر براک اوباما نے نیلسن منڈیلا کے اہل خانہ سے نجی ملاقات کی تھی، جب اُنھوں نے افریقہ کا دورہ کیا۔ صدر اوباما نے سنیگال میں جنوبی افریقہ کے علیل صدر کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’منڈیلا دنیا کے لیے ہیرو ہیں، جِن کی میراث قائم رہے گی‘۔ اس موقع پر سنیگال کے صدر نے کہا کہ ، ’منڈیلا ایک شناخت کے علاوہ بھی ہم سب کے لیے بہت کچھ ہیں‘، جِن سےعالمی راہنما بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
منڈیلا کے احترام کا یہ عالم تھا کہ پریٹوریہ کے اسپتال میں، جہاں وہ داخل تھے، اُن کے پرستار، اپنے پرائے سارے کئی ہفتوں تک باہر کھڑے اُن کی جلد صحتیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔
انسان فانی ہے۔ لیکن، کوئی شبہ نہیں کہ منڈیلا جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ اُن کی ماں، لِی رُزینیا کے بقول، ’منڈیلا نے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں کردار ادا کیا‘۔
جب وہ اسپتال میں داخل تھے، باہر کھڑے 20عدد بچے اپنے محبوب قائد کے لیے ایک شعر پڑھتے رہے، جس میں مینڈیلا کے ملک و قوم پر احسانات بیان کیے گئے تھے۔ ادھر، جنوبی افریقہ کی اخباری تنظیم نے کتبہ اٹھا رکھا تھا جس میں درج تھا:‘Hold on, old man’
نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران، نیلسن منڈیلا نے 27برس جیل کاٹی۔ باہر آنے پر اُن کا پیغام ’درگزر کرو‘ تھا، جو ایک مثالی نصب العین کا درجہ حاصل کر گیا۔
اُن کے ہم عصر بتاتے ہیں کہ منڈیلا ایک سادہ، منکسرالمزاج اور گرمجوش انسان تھے۔
منڈیلا 18جولائی، 1918ء میں جنوبی افریقہ کے قصبے، میزو میں پیدا ہوئے۔
نسلی امتیاز کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں اُن کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اُنھیں 1993ء میں ’امن کا نوبیل انعام‘ دیا گیا۔ اُنھیں ’بھارت رتنا‘ تمغہ بھی دیا گیا تھا۔
اُن کی مشہور کتابوں میں:
Long Walk to Freedom اور How Far We Slaves Have Come
شامل ہیں۔
پچھلے برس سے اُن کی حالت ناساز رہتی چلی آ رہی تھی۔
اس سال جولائی میں پھیپھڑوں میں دوبارہ انفیکشن ہو جانے کے باعث، اُنھیں پریٹوریہ کے اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ کیپ ٹاؤن کے آرچ بشپ، تھابو ماکگوبا نے کہا تھا کہ، ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کے لیے ’پُر سکون اور بہتر اختتام‘ کی دعا کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ایک بیان میں، جنوبی افریقہ کی حکومت نے کہا کہ ملک کے سابق صدر کی حالت بدستور’تشویش ناک، لیکن مستحکم‘ ہے۔ بعدازاں، صدر زوما نے کہا تھا کہ نیلسن منڈیلا کی حالت 'گذشتہ رات سے بہتر‘ ہے۔ پھر صدر زوما نے منڈیلا کی تشویش ناک حالت کے پیشِ نظر افریقی ملک موزمبیق کا اپنا طے شدہ دورہ منسوخ کیا تھا۔
اہلِ خانہ کے دیگر افراد کے ہمراہ پریٹوریا کے 'میڈی کلینک ہارٹ ہاسپٹل' میں زیرِ علاج اپنے والد کی عیادت کے بعد، اُنھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ، ’میرے والد کی حالت ’انتہائی تشویش ناک ہے‘۔
مسٹر منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔
اُن کی جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ پر سفید فام نسل پرست حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد وہ 1994 ءمیں ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔
اپنی طویل اور پرامن سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کے باعث مسٹر منڈیلا پانچ کروڑ سے زائد آبادی والے ملک جنوبی افریقہ کے بیشتر باشندوں کے لیے ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں جب کہ بین الاقوامی برادری میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ افریقہ کے اپنے دورے کے دوران، امریکی صدر جزیرہ روبن گئے تھے، جہاں مسٹر منڈیلا تقریباً 20 سال تک قید رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، صدر اوباما نیلسن منڈیلا کو اپنے ’ہیروز‘ میں شمار کرتے تھے۔