افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے خود کش حملے میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 57 زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ خود کش دھماکے میں ایک تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
وزارتِ صحت کے ترجمان سعید جامی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے مقام سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اسپتال منتقل کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے درجنوں افراد کو بھی ایمبولینسوں کے ذریعے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
وزارتِ صحت کے حکام نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
دوسری طرف وزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ حملہ خود کش تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ خود کش حملے میں 'کوثرِ دانش' نامی تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا گیا۔
شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایک بیان میں تنظیم کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان شاخ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے ارکان کی مذمت
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے کابل میں واقع ایک ایجوکیشن سینٹر پر داعش کے دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
سلامتی کونسل کے ارکان نے متاثرہ خاندانوں، زخمی ہونے والوں اور افغان حکومت کے ساتھ گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
سلامتی کونسل کے ارکان نے افغانستان میں جاری بڑے پیمانے پر تشدد اور سیکیورٹی کی صورت حال، خاص طور پر عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے دہشت گردی کے ذمہ داروں اور ان کے مدد گاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا ہے۔
امریکہ کے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جس علاقے میں حملہ کیا گیا ہے اس کے قریب اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے۔
دولت اسلامیہ خراسان اس سے قبل بھی کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں شیعہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور اجتماعات کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ خود کش حملہ آور تعلیمی ادارے میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ البتہ دروازے پر محافظ نے اسے روک لیا۔
خیال رہے کہ داعش نے 2018 میں ایک تعلیمی ادارے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں 34 طلبہ ہلاک ہوئے تھے۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ہفتے کو ہی صوبہ غزنی میں ایک سڑک کنارے بم دھماکے میں 9 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق مشرقی افغانستان میں عام شہریوں سے بھری ہوئی گاڑی دھماکے کی زد میں آئی۔
صوبہ غزنی کی پولیس کے ترجمان احمد خان کا کہنا تھا کہ پہلے سڑک کنارے بم دھماکے کے بعد جائے وقوع پر جانے والے دو پولیس اہلکار سڑک کنارے بم دھماکے میں نشانہ بنے۔
ان دھماکوں کہ ذمہ داری بھی کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔
خیال رہے کہ رواں برس فروری میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں امن معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت آئندہ برس غیر ملکی افواج نے افغانستان نے انخلا کرنا ہے۔
امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت داعش کے خلاف کارروائیوں میں مدد ملے گی۔