اڑی پرحملے کے بعد بھارت کے بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائکس کی بات کی جارہی ہے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کے صدر مسعود خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا فوجی حل کوئی آپشن نہیں ہے۔ اور اس کی بجائے ہمیں سفارت کاری پر انحصار کرنا چاہیے۔ اور بھارت کو اس قسم کی مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ خطے کی کشیدہ صورت حال کوٹھنڈا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صدر نے، جو ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں، وائس آف امریکہ کے اسد حسن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اڑی پر حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی گھٹانے کے لیے کچھ مشاورت ہوئی ہے اور امریکہ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملک جوہری طاقتیں ہیں اور اس ناطے انہیں سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تحمل سے کام لینا چاہے۔
کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی سفارت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر پاکستانی کشمیر کے صدر کا کہنا تھا۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت کا جارحانہ رویہ خود بھارت کے اپنے حق میں بہتر نہیں ہے۔ اسے ایک ایسی فضا پیدا کرنی چاہیے کہ جس سے اس دیرینہ مسئلے کے حل کی راہ ہموار ہو اور خطے میں امن اور خوشحالی آئے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سفارت کاری بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہوا ہے اور وہ بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور دنیا کی توجہ اس بھڑکتے ہوئے مسئلے کی جانب مبذول کروا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
دونوں ملکوں میں جاری تناؤ کی صورت حال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کشیدگی کی سطح بہت بلند ہے اور اس میں کمی بھارت ہی لا سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں ظلم و ستم سے ہے جس کا رد عمل مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوسرے ملکوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن کے لیے بھارت کو اپنے عزائم سے باز رکھنے کی کوششیں کریں اور اسے مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اڑی فوجی مرکز پر اس مہنیے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سے، جس میں چار حملہ آورں سمیت 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، بھارت نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آور سرحد پار سے آئے تھے اور پاکستان سرحد پار مداخلت روکنے میں ناکام رہا ہے۔ جب کہ پاکستان اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان الزامات کا مقصد بھارتی کنٹرول کےکشمیر میں جاری احتجاج اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔