یہ غالباً 1993 یا 1994 کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں اپنے دور کے ایک بڑے صحافی مولانا عبد الوحید صدیقی کے اردو ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ میں کام کرتا تھا۔
ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ کا دفتر نئی دہلی کے ’حضرت نظام الدین ویسٹ‘ نامی پوش کالونی میں واقع تھا۔
’نئی دنیا‘ کے دفتر کے برابر ہی میں اپنے دور کے جید عالم دین اور دانشور مولانا وحید الدین خاں کی کوٹھی ہے۔ البتہ ان دونوں کوٹھیوں کے درمیان ایک سڑک ہے۔ ادارتی عملے کے ہم دو تین لوگ لنچ کے لیے جاتے ہوئے اس کوٹھی کے سامنے سے گزرتے تھے۔
کوٹھی کا گیٹ عبور کر لیا
ہم لوگ مولانا وحید الدین خاں کی علمیت، قابلیت، قلمی صلاحیت اور مقبولیت سے بہت متاثر تھے، مرعوب بھی!
وہاں سے گزرتے ہوئے کبھی کبھار ہمیں مولانا اپنی بالکونی میں نظر بھی آجایا کرتے۔ ہم لوگ بڑی دلچسپی سے ان کے بارے میں گفتگو کرتے اور ان سے ملاقات کی اپنی خواہش بھی ظاہر کرتے تھے۔ بالآخر ایک دن ہم نے اس کوٹھی کا گیٹ عبور کر لیا۔
چونکہ ہمارے ایک ساتھی نے ان سے ملاقات کا وقت لے رکھا تھا، اس لیے پہلی منزل پر جانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
مولانا ایک بڑے سے ہال میں موجود تھے، جہاں انتہائی صاف شفاف ماحول میں چاروں طرف کتابوں کی الماریاں تھیں۔
ہم نے اپنا اپنا تعارف کرایا اور دس پندرہ منٹ تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے کے بعد لوٹ آئے۔ اس ملاقات کا سرور کئی دنوں تک حواس پر طاری رہا۔
کئی برس کے بعد ان سے دوسری ملاقات ان کے پوتے اور معروف صحافی و دانشور اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے فرزند کی شادی میں ہوئی۔
مولانا وحیدالدین خاں کے انتقال کی اطلاع ملنے کے بعد یہ یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔
اپنا الگ راستہ بنانے والے مفکر
ان کے انتقال پر بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کووند سمیت متعدد سیاسی شخصیات نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔
وزیرِ اعظم مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ مولانا کو روحانیت کے معاملات میں بصیرت سے بھرپور علم رکھنے کی وجہ سے یاد کیا جائے گا۔
بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے کہا کہ مولانا وحید الدین خاں کی معاشرے میں قیامِ امن اور ہم آہنگی کے لیے انجام دی گئی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ دین کی تعبیر اور ہندوستان میں ملتِ اسلامیہ کے رویوں اور طریقۂ کار پر مولانا مرحوم کے مخصوص خیالات تھے۔
سعادت اللہ حسینی کا کہنا تھا کہ ان کے خیالات سے بہت سے اہلِ علم نے اختلاف بھی کیا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے مولانا کے علمی کارناموں اور ان کی عظیم خدمات کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔
سعادت اللہ حسینی کے بقول مولانا وحید الدین خاں کی تصانیف کے ذریعے انسانیت اسلام سے متعارف ہوتی رہے گی۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے کہا کہ مولانا ایک وسیع مطالعہ رکھنے والے عالم دین تھے۔ وہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک مخصوص فکر رکھتے تھے جس کا اظہار ان کی تحریر و تقریر میں نظر آتا ہے۔
معروف اسلامی اسکالر اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا امن کے نقیب تھے۔ وہ خیر سگالی چاہتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ مولانا وحید الدین خاں کی تصنیفات اس لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں کہ انہوں نے اردو زبان میں جس علمی نثر کو فروغ دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
سائنس اور اسلام ساتھ ساتھ
پروفیسر اختر کے بقول مولانا نے سائنس اور اسلامی علوم کے درمیان ہم آہنگی کا ایک راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ وہ جدید علم کلام کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کے ڈائریکٹر مفتی عطا الرحمن قاسمی نے کہا کہ پوری دنیا میں اسلام کا ایک پرامن چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ان کی خدمات غیر معمولی ہیں۔
کویت کے ادارے ’احیاء التراث الاسلامی‘ سے وابستہ جماعت اہلحدیث کے بڑے عالم دین شیخ صلاح الدین مقبول نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا وحید الدین خاں نے جدید سائنس اور اسلام کے موضوع پر جو کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
شہرت کا آغاز
ان کے مطابق مولانا کی شہرت کا آغاز ’علم جدید کا چیلنج‘ نامی ان کی کتاب سے ہوا۔ اس وقت وہ ادارہ تحقیقات و نشریات ندوة العلما لکھنؤ سے وابستہ تھے۔ وہ منفرد خیالات و نظریات کے حامل عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں سے ایک بہت بڑے علمی حلقے کو متاثر کیا۔ حالاں کہ ان کی بہت سی تحریروں پر لوگوں نے تنقید بھی کی لیکن ان کے فکری مخالفین بھی ان کی قدر کرتے رہے ہیں۔
منفرد اندازِ تحریر
مولانا بدر الحسن قاسمی کے مطابق وہ ایک اچھے قلم کار اور ممتاز انشاپرداز تھے۔ اپنی زندگی میں وہ کئی مراحل سے گزرے۔
ایک زمانے میں وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت کے معتمد افراد میں شمار کیے جاتے تھے۔ مرکزی شوریٰ کے رکن بھی تھے اور ان کے بعض مضامین جماعت کے نصاب کی کتاب ’تعمیری ادب‘ میں شامل تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول بعد میں مولانا مودودی کی فکر سے ان کا اختلاف ہوا اور دونوں کے درمیان طویل خط و کتابت ہوئی۔ جب انہیں مولانا مودودی سے اپنے سوالات کا جواب نہیں ملا تو 15سال کے بعد وہ جماعت اسلامی سے الگ ہوئے۔
مولانا قاسمی کے مطابق جمعیت سے قریب ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی آمد ورفت ہوئی جہاں ان کی متعدد تقاریر ہوئیں۔
معمر قذافی کی کتاب کا ترجمہ
بدر الحسن قاسمی کے بقول لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی سے ان کے قریبی روابط رہے ہیں۔ قذافی کی کتاب ’گرین بک‘ کا انہوں نے ’کتاب اخضر‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔ ان کی شہرت میں اس کتاب کا بھی دخل ہے۔
روحانی اسکالر
’مولانا وحید الدین خاں ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں متعدد ایوارڈز ملے جن میں بھارت کا اعلیٰ سول اعزاز پدم بھوشن، راجیو گاندھی نیشنل سدبھاونا ایوارڈ، نیشنل سٹیزن ایوارڈ اور کئی عالمی ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی سے شائع ہونے والی کتاب ’دی 500 موسٹ انفلواینشل مسلمز آف 2009‘ میں ان کا نام ’اسلام کا عالمی روحانی سفیر‘ کی حیثیت سے شامل ہے۔
سائنسی سوالوں کے جواب کی جستجو
مولانا وحید الدین خاں 1925 میں اترپردیش کے مردم خیز ضلعے اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل رہا ہے۔
ان کی ابتدائی تعلیم ’مدرسة الاصلاح‘ سرائے میر اعظم گڑھ میں ہوئی۔ 1944 میں وہاں سے انہوں نے تعلیم مکمل کی۔
مدرسے سے فراغت کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ تعلیم مکمل ہو جانے کے باوجود سائنسی علوم حاصل کرنے والوں کے سوالوں کے جواب دینے سے وہ قاصر ہیں۔ لہٰذا انہوں نے انگریزی سیکھنی شروع کی اور اس میں مہارت حاصل کر لی۔
ان کی پہلی کتاب ’نئے عہد کے دروازے پر‘ 1955 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے خیالات کی تشریح ’علم جدید کا چیلنج‘ نامی کتاب میں کی۔
ان دونوں کتابوں کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ان کی کتاب ’الاسلام‘ کی بھی کافی پذیرائی ہوئی۔
اسلامک سینٹر کا قیام
مختلف جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے سفر کے بعد انہوں نے 1970 میں نئی دہلی میں ’اسلامک سینٹر‘ نامی ادارہ قائم کیا اور پھر 1976 میں انہوں نے ’الرسالہ‘ جریدے کا آغاز کیا جسے بعد میں انگریزی اور ہندی زبانوں میں بھی شائع کیا گیا۔ انہوں نے جنوری 2001 میں ’مرکز برائے امن و روحانیت‘ بھی قائم کیا۔
ان کے کاموں کا گہرائی سے جائزہ لینے والوں کے مطابق مولانا نے بابری مسجد اور فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں جو مؤقف اختیار کیا اس سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے اختلاف کیا۔
بابری مسجد سے دستبرداری کا مشورہ
مبصرین کے مطابق مولانا نے اس حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ امن کی خاطر بابری مسجد سے دست بردار ہو جائیں۔ جب کہ مسلمانوں کی اکثریت نے ان کی اس رائے کو مسترد کر دیا تھا۔
ایودھیا کی بابری مسجد کے 1992 میں انہدام کے بعد مولانا نے محسوس کیا کہ جب تک بھارت کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں پر امن تعلقات قائم نہیں ہوں گے مسلمان ترقی نہیں کر سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی لیے انہوں نے ہندوؤں کے مذہبی رہنما آچاریہ منی سشیل کمار اور سوامی چدانند کے ساتھ مہاراشٹرا میں 15 روزہ ’شانتی یاترا‘ یا امن مارچ کیا تھا۔
انہوں نے ممبئی اور ناگپور کے راستے میں 35 مقامات پر تقریریں کیں۔ ان کی ان کوششوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی ایک شاخت قائم ہوئی۔
آر ایس ایس میں مقبولیت
مبصرین کے مطابق اپنے ان خیالات کی وجہ سے جن کو عام طور پر مسلمانوں کی جانب سے مسترد کیا جاتا رہا ہے، وہ دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) میں خاصے مقبول ہوئے اور آر ایس ایس کے بڑے رہنماؤں سے ان کے بڑے خوش گوار اور دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔
وہ جنگ آزادی میں بھی شامل رہے اور مہاتما گاندھی سے کافی متاثر بھی تھے۔ وہ پوری زندگی گاندھی کے فلسفۂ ’عدم تشدد‘ پر کار بند رہے اور امن کی وکالت کرتے رہے۔
دو سو سے زائد کتابیں
مولانا وحید الدین خاں نے اسلام، روحانیت، پرامن بقائے باہم، تکثیری سماج، جہاد، امن، اسلام میں بین البرادری رشتے اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر 200 سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں۔
انہوں نے قرآن مجید کا انتہائی آسان زبان میں اردو، ہندی اور انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
ان کی منفرد سوچ اور اسلام کی الگ تشریح کے سبب علمی حلقوں میں انہیں تنقید کا بھی سامنا رہتا تھا۔ ان کے نظریات کو رد کرنے کے لئے کتابیں لکھی گئیں۔
مولانا کے مداحوں میں سابق صدر اے پی جے عبد الکلام بھی شامل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ میں نے ان کی متعدد کتابیں پڑھی ہیں اور میں ان کو ایک روحانی رہنما سمجھتا ہوں۔