امریکی قیادت کو بھیجے گئے متنازع ’’میمو‘‘ یا مراسلے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے اس اسکینڈل کے اہم گواہ امریکی شہری منصور اعجاز کا بیان ’ویڈیو لنک‘ کے ذریعہ ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیشن نے جمعہ کو جاری کیے گئے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ کمیشن کے سیکرٹری لندن جا کر منصور اعجاز سے اس اسکینڈل سے متعلق شواہد حاصل کریں گے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی عدالتی کارروائی میں کوئی گواہ ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروائے گا۔
پاکستانی نژاد امریکی شہری کو 9 فروری کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن ان کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن کو بتایا کہ سکیورٹی خدشات کے باعث منصور اعجاز پاکستان نہیں آ سکتے۔
عدالتی کمیشن نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں کہا ہے کہ اب منصور اعجاز لندن میں رہتے ہوئے 22 فروری کو ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔
صدر آصف علی زرداری سے منسوب مراسلے کے مبینہ خالق سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد حسین بخاری نے کمیشن کو بتایا کہ اگر منصور اعجاز پاکستان نہیں آئیں گے تو اُن کے موکل بھی آئندہ کمیشن کے سامنے اپنے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ہی ریکارڈ کروائیں گے۔
حسین حقانی رواں ماہ سپریم کورٹ کی اجازت سے امریکہ چلے گئے تھے۔ لیکن عدالت نے کہا تھا کہ اگر انھیں مقدمے کی سماعت کے دوران بلوانے کی ضرورت ہوئی تو وہ پاکستان آنے کے پابند ہوں گے۔
ادھر میمو اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ منصور اعجاز کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر ہی اپنا بیان قلمبند کرانا ہوگا کیوں کہ پارلیمانی کمیٹی اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے اجلاس کے پارلیمان کی عمارت کے اندر ہی منعقد کرے۔