بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، ٹرافی کی جنگ میں اب 10 میں سے صرف چار ٹیمیں باقی رہ گئی ہیں جن کا مقابلہ بدھ سے سیمی فائنل مرحلے میں ہو گا۔
ایونٹ کا پہلا سیمی فائنل بدھ کو ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں میزبان بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ دوسرے سیمی فائنل میں جمعرات کو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں نبرد آزما ہوں گی۔
ناک آؤٹ مرحلے تک رسائی کے تجربے کے لحاظ سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو دوسروں پر برتری حاصل ہے کیوں کہ گزشتہ 12 ایڈیشنز میں وہ آٹھ، آٹھ مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچی ہیں۔
سات مرتبہ ایونٹ کا سیمی فائنل کھیل کر بھارت کا دوسرا نمبر ہے جب کہ پہلے چار ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے والی جنوبی افریقی ٹیم نے اب تک صرف چار سیمی فائنل کھیلے اور چاروں ہی میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جب بھی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی بات ہو گی تو اس میں سے وہ دو سیمی فائنل ہمیشہ یاد رہیں گے جن میں انہی چار ٹیموں نے شرکت کی جو اس وقت لاسٹ فور میں موجود ہیں۔
اس میں سے ایک سیمی فائنل جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان 1999 میں کھیلا گیا، جب کہ 2019 میں دوسرا نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان ہوا۔ ان دونوں میچوں میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے انہیں یادگار بنایا، جانتے ہیں۔
'جب مارٹن گپٹل کی ڈائریکٹ تھرو نے وکٹ کے ساتھ ساتھ بھارت کے خواب بھی توڑ دیے'
ویسے تو لیگ میچز کے اختتام پر اس بار بھارت نے پوائنٹس ٹیبل پر پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔ لیکن چار سال پہلے بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی تھی، جب پہلے نمبر پر موجود بھارتی ٹیم کو چوتھی پوزیشن والی نیوزی لینڈ سے پہلا سیمی فائنل کھیلنا پڑا تھا۔
اولڈ ٹریفرڈ میں کھیلے جانے والے اس میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 8 وکٹوں کے نقصان پر 239 رنز اسکور کیے، کپتان کین ولیمسن اور سابق کپتان روس ٹیلر کی نصف سینچریوں نے کیویز کو مشکلات سے نکالا تھا۔
جواب میں بھارتی ٹیم کا آغاز بھی زیادہ اچھا نہیں تھا اور 71 رنز ہر اس کے پانچ کھلاڑی واپس پویلین چلے گئے تھے جن میں ان فارم روہت شرما بھی شامل تھے۔ ایسے میں وکٹ کیپر ایم ایس دھونی اور رویندرا جڈیجا نے ذمہ داری سے بیٹنگ کر کے اننگز کو سنبھالا اور اسکور کو 48 ویں اوور میں 208 تک لے گئے۔
جڈیجا کے 77 رنز پر آؤٹ ہو جانے کے بعد میچ کو ختم کرنے کی ذمے داری دھونی کے کندھوں پر تھی۔ لیکن ففٹی مکمل کرتے ہی وہ آؤٹ ہو گئے، جب بھارت کو 10 گیندوں پر 25 رنز درکار تھے اور تجربہ کار دھونی 49 رنز پر بیٹنگ کر رہے تھے، تو لوکی فرگوسن کی گیند پر انہوں نے لیگ سائیڈ پر شاٹ مار کر دو رنز بھاگنے کی کوشش کی لیکن دوسرا رن مکمل نہیں کر سکے۔
اس سے پہلے کہ اپنی برق رفتاری کی وجہ سے مشہور بھارتی بلے باز دوسرے رن کے لیے کریز پر پہنچتے، فیلڈر مارٹن گپٹل کی ڈائریکٹ تھرو وکٹ پر لگ گئی۔ دھونی کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی بھارت کی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور پوری ٹیم 221 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔
جب آخری اوور میں جنوبی افریقہ کے اعصاب جواب دے گئے تھے!
آج تک جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں دو مرتبہ سیمی فائنل کھیلے ہیں اور دونوں ہی بار آسٹریلوی ٹیم فاتح بن کر فائنل میں پہنچی۔ 2007 میں ہونے والے مقابلے کو اس لیے کم لوگ یاد رکھتے ہیں کیوں کہ اس میں دفاعی چیمپئن سائیڈ نے باآسانی کامیابی حاصل کی تھی۔
البتہ اس فتح سے آٹھ سال قبل ہونے والے مقابلے کو دنیائے کرکٹ کے سنسنی خیز مقابلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے جس میں مقابلہ تو بے نتیجہ رہا، لیکن آسٹریلوی ٹیم بہتر رن ریٹ پر فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس میچ سے قبل ایونٹ کے دوران دونوں ٹیموں کے درمیان ایک اور میچ ہوا تھا جس میں فیلڈر ہرشل گبز کا آسٹریلوی کپتان اسٹیو وا کا کیچ گرانا جنوبی افریقہ کو مہنگا پڑ گیا تھا۔ تاہم شائقینِ کرکٹ پرامید تھے کہ ہینسی کرونئے کی قیادت میں جنوبی افریقی ٹیم دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گی۔
ایجبیسٹن میں ہونے والے میچ میں آسٹریلوی ٹیم فاسٹ بالرز شان پولاک کی پانچ اور ایلن ڈونلڈ کی چار وکٹوں کی بدولت صرف 213 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔
بلے باز مائیکل بیون اور کپتان اسٹیو وا کے علاوہ کوئی بھی کھلاڑی نصف سینچری نہ بنا سکا۔ جواب میں جنوبی افریقی ٹیم کا آغاز جارحانہ تھا جنہوں نے ہرشل گبز کے 30 اور گیری کرسٹن کے 18 رنز کی وجہ سے اسکور کو 48 رنز تک پہنچا دیا۔
لیکن شین وارن کی دو اوورز میں دو وکٹیں آسٹریلیا کو میچ میں واپس لے آئیں، صرف 13 رنز کے وقفے میں جنوبی افریقہ کے چار بلے باز واپس پویلین چلے گئے تھے جس میں سے تین کا شکار وارن نے کیا تھا۔
اس صورتِ حال میں جیک کیلس کے 53 اور جونٹی روڈز کے 43 رنز جنوبی افریقہ کو مشکلات سے نکالا تو لیکن پوری ٹیم آخری اوور میں 213 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔
ان فارم لانس کلوزنر کے 16 گیندوں پر ناقابلِ شکست 31 رنز بھی ٹیم کو سیمی فائنل سے آگے نہیں لے جا سکے۔ میچ کو ٹائی تو قرار دیا گیا۔ لیکن سپر سکس اسٹیج میں بہتر رن ریٹ کی وجہ سے اسٹیو وا کی ٹیم نے فائنل میں جگہ بنائی۔
میچ برابر کرنے کے بعد جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کی طرح جشن منایا، اسٹیو وا
اس تاریخی میچ کا احوال اس میچ میں آسٹریلیا کی قیادت کرنے والے اسٹیو وا نے اپنی کتاب 'آؤٹ آف مائی کمفرٹ زون ' میں کچھ اس انداز میں بیان کیا۔
"ہدف کے تعاقب میں جب جنوبی افریقہ کا 48 رنز پر کوئی کھلاڑی آؤٹ نہیں تھا تو میں نے شین وارن کو گیند دے کر اس رسم کو توڑا جس کے مطابق فاسٹ بالرز کو فرسٹ چینج لایا جاتا ہے، اس نے نہ صرف ہرشل گبز کو ایک ایسی گیند پر بولڈ کیا جو 'بال آف دی سینچری' سے زیادہ مختلف نہیں تھی، بلکہ اس کے بعد جس انداز میں جشن منایا، تو پوری ٹیم کو زور لگا کر اس کی پیش قدمی کو روکنا پڑا۔"
"وارن کی آٹھ گیندوں پر تین وکٹوں نے جنوبی افریقہ کو مشکل میں ڈال دیا جس سے ہمیں میچ جیتنے کا حوصلہ ملا، یہ میچ بلاشبہ میرے بطور کپتان کریئر کا سب سے مشکل میچ تھا جس میں ایک بھی غلط فیصلہ ہمیں مہنگا پڑ سکتا تھا۔ ایسے میں پال رائفل کا نہ صرف دو کیچ گرانا بلکہ اہم موقع پر گیند کو باؤنڈری سے باہر پھینک دینا جنوبی افریقہ کو میچ میں واپس لے آیا۔"
"اس کے باوجود مجھے اندازہ تھا کہ ڈیمین فلیمنگ کی یارکرز کا جنوبی افریقی بلے بازوں کے پاس جواب نہیں ہو گا، اور ایسا ہی ہوا۔ جنوبی افریقہ کو آخری اوور میں نو رنز بنانا تھے اور ہمیں ایک وکٹ چاہیے تھی، ہمارا پلان تھا کہ یارکر مار کر باؤنڈری روکیں گے اور کوشش کریں گے کہ کلوزنر کو اسٹرائیک سے ہٹائیں۔ لیکن جب باؤنڈری پر پانچ فیلڈرز کی موجودگی کے باوجود پہلی دو گیندوں پر کلوزنر نے دو چوکے مار کر اسکور برابر کیا، تو ہم نے فیلڈر کو اندر بلا لیا تاکہ وہ یا تو رن روکے، یا کیچ پکڑے۔"
"ایسے میں لانس کلوزنر جنہوں نے پورے ایونٹ میں ایک بھی مس ہٹ نہیں ماری تھی، اُنہوں نے ایک ایسا شاٹ مارا جو سیدھا فیلڈر کے ہاتھ میں گیا، دباؤ میں آکر ڈیرن لیمین کی تھرو وکٹ پر تو نہیں لگی۔ لیکن رن بھی نہیں بن سکا۔
تعجب کی بات یہ تھی کہ نہ تو جنوبی افریقی بلے بازوں نے اگلی گیند کے حوالے سے کوئی بات چیت کی، نہ ہم نے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اگلی گیند بھی مس ہٹ تھے جو سیدھا امپائر کے پیچھے کھڑے مارک وا کے ہاتھ میں گئی جنہوں نے انڈور کرکٹ کے فیلڈر کی طرح گیند فلیمنگ کی جانب واپس پھینک دی۔"
"ابھی گیند بالر کے پاس آئی تھی کہ لانس کلوزنر نے وہ رن لینا شروع کر دیا جو ان کی ٹیم کو فائنل میں پہنچا سکتا تھا۔ لیکن نان اسٹرایئکر ایلن ڈونلڈ نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور ان کا بلا ان کے ہاتھ سے گر گیا۔ اس دوران ڈیمین فلیمنگ نے گیند کو زمین پررول کرتے ہوئے وکٹ کیپر کی جانب پھینکا جس نے آرام سے رن آؤٹ مکمل کیا۔"
اسٹیوا وا کے بقول گزشتہ گیند پر رن آؤٹ سے بچ جانے کی وجہ سے شاید ایلن ڈونلڈ کنفیوز تھے ورنہ واپس اسی نان اسٹرایئکر اینڈ پر واپس نہ جاتے جس کی جانب کلوزنر بھاگ رہے تھے۔ انہوں نے اس وکٹ کو ٹین پن بالنگ کے کھیل سے مشابہت دیتے ہوئے لکھا کہ کھلاڑی اس وکٹ کے بعد ایسے دوڑے جیسے وہ جیل سے فرار ہوئے ہوں، جب تک مائیکل بیون نے اعلان نہیں کیا کہ ٹیم فائنل میں پہنچ گئی ہے، سب اسی بات پر خوش تھے کہ کم از کم میچ نہیں ہارے۔"
آج تک کلوزنر اور ڈونلڈ سے نہیں پوچھا کہ آخری گیند پر کیا ہوا تھا، ہرشل گبز
اس میچ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے ہرشل گبز اپنی کتاب 'ٹو دی پوائنٹ' میں لکھتے ہیں کہ بظاہر 213 رنز کا ہدف زیادہ نہیں تھا۔ لیکن شین وارن کی بالنگ دونوں ٹیموں کے درمیان سب سے بڑا فرق بن کر سامنے آئی۔
ان کے بقول جس گیند پر شین وارن نے انہیں بولڈ کیا، اس پر نہ تو وہ آگے آسکتے تھے، نہ پیچھے جا سکتے تھے، اور سوئپ اس لیے نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ اس کی لینتھ سوئپ والی نہیں تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گیند ان کے بیٹ کے قریب سے نکل کر پیچھے گئی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ وکٹ پر لگ گئی ہو گی۔ لیکن وکٹ کیپر گلکرسٹ کے شور نے انہیں پیچھے دیکھنے پر مجبور کیا جس کے بعد وہ حیران ہی رہ گئے۔
میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آخری 20 اوورز کے دوران وہ فزیو کے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے اورساتھی کھلاڑی نکی بوئیے کی شکل دیکھ کر صورتِ حال کا اندازہ لگارہے تھے، آخری وکٹ کے گرنے پر پوری ٹیم افسردہ تھی، اور آدھے منٹ میں جذبات خوشی سے غم میں بدل گئے تھے۔
ان کے بقول میچ ختم ہونے کے 10 منٹ بعد تک جنوبی افریقی ڈریسنگ روم میں خاموشی چھائی ہوئی تھی جب کہ آسٹریلیا کے ڈریسنگ روم سے شور کی آواز آرہی تھی۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ آج تک انہوں نے کلوزنر یا ڈونلڈ سے نہیں پوچھا کہ آخر اس موقع پر ہوا کیا تھا کیوں کہ وہ اس واقعے کو بھولنا چاہتے ہیں۔