عوامی تحریکوں کی لہر مصر اور تیونس میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے کے بعد اب مشرق وسطی میں بھی اپنا رنگ دکھارہی ہے اور کئی خلیجی ریاستیں خبروں کا موضوع بنی ہوئی ہیں ۔ ان ممالک میں حکومتیں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو دبانے کے لیے ریاستی جبر اور طاقت کا استعمال کررہی ہیں جس سے وہاں غیر یقینی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔ اِدھر یہاں واشنگٹن میں یہ سوال اٹھایا جارہاہے کہ ان تحریکوں کے وہاں کے سماجی اور سیاسی نظام پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھنے کے عمل میں نوجوانوں کو کس طرح شریک کیا جاسکتا ہے
شام میں عوامی تحریک اور مظاہرین کے خلاف حکومت کا سخت رد عمل سامنے آ رہاہے۔ لیکن فسادات اور غیر یقینی صرف شام تک ہی محدود نہیں۔
حال ہی میں مصر میں دو گرجا گھروں میں آگ لگانے کے بعد واقعے کے بعد وہاں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے تھے جس میں 12 افراد ہلاک اور 220 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
امریکہ میں بعض ماہرین کوخدشہ ہے کہ مصر میں عوامی تحریک کی بنیاد رکھنے والے نوجوانوں کی آواز اب فسادات اور غیر یقینی کے شور میں غائب ہو رہی ہے۔ جبکہ بہت سے وہ حکام جن کے خلاف اُنہوں نے یہ تحریک شروع کی تھی، اب بھی اپنی اپنی جگہ موجو ہیں۔
امریکہ میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے امریکن اسلامک کانگریس کی اسکالر زینب الصواج کہتی ہیں کہ مشرق وسطی میں نوجوان اگر کم عمر ی کی وجہ سے سیاست میں حصہ نہ لے سکیں، تب بھی سماجی پروگراموں کے ذریعے ان کی شمولیت بڑھانی بہت ضروری ہے۔
الصواج کا کہناہے کہ عرب اور مسلمان ملکوں میں ہمیں اپنے عوام کے 60 فی صد حصے، اپنے نوجوانوں کی شمولیت نظر نہیں آتی۔ انہیں الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ نوجوانوں میں بہت قوت اور ولولہ ہے۔ وہ اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے ان کی شمولیت جاری رکھنے میں شہری اداروں کا بہت اہم کردار ہو گا۔
لیبیا میں باغی گروپوں کے اتحاد قائم کرنے کے باوجود حکومت کو کوئی ٹھوس شکل نہیں دی جا سکی ہے۔ اور نیٹو کی لگاتار بمباری کے باوجود معمر قذافی حکومت چھوڑنے کو تیار نہیں ۔
بحرین میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔ جب کہ یمن میں مظاہرین کا حکومت سختی سے جواب دے رہی ہے۔
واشنگٹن میں تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ غیر یقینی صورت حال کے باعث دہشت گرد یا انتہا پسند عناصر زور پکڑ سکتے ہیں۔
واشنگٹن کےتحقیقی ادارے ووڈ رو ولسن سینٹر سے منسلک تجزیہ کار ڈیوڈ اوٹاوے کہتے ہیں کہ مشرق وسطی میں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں بہت سے مختلف گروپ سامنے آرہے ہیں جن میں انتہا پسند گروپ بھی شامل ہیں۔
http://www.youtube.com/embed/FmW_Y1SesJo
اوٹاوے کا کہنا ہے کہ ان کے مقابلے میں کچھ دوسرے گروپ پیدا ہو سکتے ہیں جو ان کا اثر کم کر سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس علاقے میں انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کریں، یہ نئی پارٹیاں، جو ممکن ہے غیر مذہبی ہوں، ان گروپوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے لڑیں گی، مگر وہ سیاسی منظرنامے پر ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گی۔ اور یوں اپنے اپنے ملک میں انتہا پسندی کو محدود کر سکیں گی۔
لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ القائدہ اور علاقائی دہشت گرد تنظیمیں اپنے نظریات کی بنیاد مقامی مسائل پر رکھتی ہیں۔ اور جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، یہ تنظیمیں بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ لیبیا یا یمن جیسے ملکوں میں، جہاں آمرانہ حکومتیں عرصے سے قائم ہیں، ممکن ہے جمہوریت جڑ پکڑ نہ پائےلیکن امریکہ ان ملکوں کو سیاسی ادارے تشکیل دینے اور حکومت قائم کرنے میں امداد فراہم کر سکتا ہے۔
اوٹاوے کی رائے میں مشرق وسطی کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ضرور ہے۔ لیکن مشرق وسطی کے جمہوری تجربے سے مثبت نتائج حاصل کرنے کےلیے امریکہ کو ہر ملک کی انفرادی صورت حال کے پیش نظر اپنی خارجہ پالسی تشکیل دینی ہو گی۔