علاقے میں پولیس کے خصوصی دستے کے ڈھائی ہزار اہلکاروں اور 800 فوجیوں سمیت ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔
واشنگٹن —
بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک ضلع میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں 31 افراد کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں پولیس اہلکار اور فوجی دستے تعینات کردیے ہیں۔
پولیس کے مطابق یو پی کے ضلع مظفر نگر میں فسادات کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جو اتوار کو پورا دن جاری رہے۔ تاہم پولیس اور فوجی دستوں نے علاقے میں پہنچنے کے بعد پیر کی دوپہر تک صورتِ حال پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔
ریاست کے نائب پولیس سربراہ ارون کمار کے مطابق تشدد کے بیشتر واقعات مظفر نگر شہر اور اس کے نواحی دیہات میں پیش آئے ہیں۔
فسادات سے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کے دستے مسلسل گشت کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق فسادات کا سبب ایک مبینہ ویڈیو بنی ہے جس میں علاقے سے تعلق رکھنے والے ان دو ہندو نوجوانوں کو کوڑے مارے جارہے ہیں جنہیں مبینہ طور پر گزشتہ ماہ قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ویڈیو جعلی ہے۔
علاقے کے ایک عہدیدار کوشال راج شرما نے 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا ہے کہ ویڈیو کے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے بعد ہفتے کو پانچ ہزار سے زائد کسانوں نے احتجاج کیا تھا جو بعد ازاں مشتعل ہوگئے اور قتل و غارت شروع کردی۔
علاقہ حکام کے مطابق مشتعل مظاہرین نے ہفتے کو مختلف مقامات پر حملے کرکے 13 افراد کو ہلاک کردیا تھا جس کے بعد چاقووں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ نزدیکی دیہات تک پھیل گیا۔
فسادات کے دوران میں متاثرہ علاقوں میں کئی گھروں اور دیگر املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا۔
کوشال شرما کے مطابق پیر کو دوپہر تک ہلاک ہونے والوں میں سے نصف سے زائد مسلمان ہیں۔ اتوار کی شب سے متاثرہ دیہات سے مسلمان خاندانوں کی محفوظ مقامات پر نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں مقامی ٹی وی چینل سے منسلک ایک صحافی اور پولیس کا فوٹو گرافر بھی شامل ہیں۔
پولیس افسر ارون کمار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 90 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ علاقے میں پولیس کے خصوصی دستے کے ڈھائی ہزار اہلکاروں اور 800 فوجیوں سمیت ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔
بھارت کی گنجان ترین لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔
فسادات سے متاثرہ علاقے کا رخ کرنے والے ایک وفاقی وزیر سمیت حزبِ اقتدار اور اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کو پولیس نے علاقے کا دورہ کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ ان کے جانے سے تشدد کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔
ان فسادات پر بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔
وزیرِ داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادیو پر وفاق کی جانب سے دی جانے والی وارننگز سے غفلت برتنے اور فسادات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
جب کہ مسلمان ووٹوں پر بڑی حد تک انحصار کرنے والے ریاستی حکمران جماعت 'سماج وادی پارٹی' کے رہنماؤں نے فسادات کا ذمہ دار حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کو ٹہرایا ہے جو ان کے بقول ہندو مسلم فسادات کراکے آئندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
علاقہ پولیس نے ان چھ مقامی سیاسی رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات درج کرلیے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ہفتے کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں جس پر مظاہرین نے مشتعل ہوکر مسلمانوں پر حملے شروع کردیے تھے۔
مذکورہ رہنماؤں میں سے تین کا تعلق 'بی جے پی' جب کہ ایک کا حکمران جماعت کانگریس سے ہے۔
پولیس کے مطابق یو پی کے ضلع مظفر نگر میں فسادات کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جو اتوار کو پورا دن جاری رہے۔ تاہم پولیس اور فوجی دستوں نے علاقے میں پہنچنے کے بعد پیر کی دوپہر تک صورتِ حال پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔
ریاست کے نائب پولیس سربراہ ارون کمار کے مطابق تشدد کے بیشتر واقعات مظفر نگر شہر اور اس کے نواحی دیہات میں پیش آئے ہیں۔
فسادات سے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کے دستے مسلسل گشت کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق فسادات کا سبب ایک مبینہ ویڈیو بنی ہے جس میں علاقے سے تعلق رکھنے والے ان دو ہندو نوجوانوں کو کوڑے مارے جارہے ہیں جنہیں مبینہ طور پر گزشتہ ماہ قتل کردیا گیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ویڈیو جعلی ہے۔
علاقے کے ایک عہدیدار کوشال راج شرما نے 'نیویارک ٹائمز' کو بتایا ہے کہ ویڈیو کے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے بعد ہفتے کو پانچ ہزار سے زائد کسانوں نے احتجاج کیا تھا جو بعد ازاں مشتعل ہوگئے اور قتل و غارت شروع کردی۔
علاقہ حکام کے مطابق مشتعل مظاہرین نے ہفتے کو مختلف مقامات پر حملے کرکے 13 افراد کو ہلاک کردیا تھا جس کے بعد چاقووں، لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ نزدیکی دیہات تک پھیل گیا۔
فسادات کے دوران میں متاثرہ علاقوں میں کئی گھروں اور دیگر املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا۔
کوشال شرما کے مطابق پیر کو دوپہر تک ہلاک ہونے والوں میں سے نصف سے زائد مسلمان ہیں۔ اتوار کی شب سے متاثرہ دیہات سے مسلمان خاندانوں کی محفوظ مقامات پر نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں مقامی ٹی وی چینل سے منسلک ایک صحافی اور پولیس کا فوٹو گرافر بھی شامل ہیں۔
پولیس افسر ارون کمار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 90 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ علاقے میں پولیس کے خصوصی دستے کے ڈھائی ہزار اہلکاروں اور 800 فوجیوں سمیت ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔
بھارت کی گنجان ترین لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔
فسادات سے متاثرہ علاقے کا رخ کرنے والے ایک وفاقی وزیر سمیت حزبِ اقتدار اور اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کو پولیس نے علاقے کا دورہ کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ ان کے جانے سے تشدد کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔
ان فسادات پر بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔
وزیرِ داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادیو پر وفاق کی جانب سے دی جانے والی وارننگز سے غفلت برتنے اور فسادات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
جب کہ مسلمان ووٹوں پر بڑی حد تک انحصار کرنے والے ریاستی حکمران جماعت 'سماج وادی پارٹی' کے رہنماؤں نے فسادات کا ذمہ دار حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کو ٹہرایا ہے جو ان کے بقول ہندو مسلم فسادات کراکے آئندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
علاقہ پولیس نے ان چھ مقامی سیاسی رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات درج کرلیے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ہفتے کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں جس پر مظاہرین نے مشتعل ہوکر مسلمانوں پر حملے شروع کردیے تھے۔
مذکورہ رہنماؤں میں سے تین کا تعلق 'بی جے پی' جب کہ ایک کا حکمران جماعت کانگریس سے ہے۔