رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: بھارتی مسلمانوں کی پسماندگی


اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارتی مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور ان کی پسماندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:36 0:00

اخبار نے ماضی کی ایک سرکاری رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ بھارتی مسلمان تعلیم اور سرکاری نوکریوں کے معاملے میں صرف اونچی ذات کے ہندووں ہی نہیں بلکہ دلِتوں سے بھی پیچھے ہیں جنہیں تاریخی طور پر بھارتی معاشرے میں سب سے پسماندہ اور نچلی ذات تصور کیا جاتا ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق کہ بھارت کے کئی شہروں میں ہندو اعلیٰ تعلیمِ یافتہ مسلمانوں تک کو کرایے پر گھر دیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی تاریخ میں جتنے ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں ان میں مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان ہندووں سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔

لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کا دعویٰ ہے کہ یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے اور بھارتی معاشرہ برداشت اور رواداری جیسی صفات میں دنیا بھر میں سرِ فہرست ہے۔

اخبار کے مطابق تقسیمِ ہند کے وقت بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 10 فی صد سے بھی کم تھی جو اب بڑھ کر 15 فی صد تک جاپہنچی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کےحالات مسلمانوں کے لیے سازگار ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ بھارت کی ایک اہم شناخت 'بالی ووڈ' ہے جہاں صرف پردہ سیمیں پر ہی مسلمان سپر اسٹارز کا راج نہیں بلکہ اس عالمی شہرتِ یافتہ صنعت سے وابستہ بیشتر موسیقار اور لکھاری بھی مسلمان ہیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ بھارتی مسلمان سیاست، صحافت ، کاروبار اور فوج میں بھی اعلیٰ مناصب تک پہنچے ہیں اور ان تمام شعبوں میں فعال کردار ادا کرر ہے ہیں۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں 80ء کی دہائی کی طرز پر ہونے والے ہندو مسلم فسادات کا وہ دور اب گزر چکا جب نسلی منافرت کا کوئی ایک واقعہ پورے ملک میں آگ لگادیا کرتا تھا۔

اخبار کے مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی کا سبب وہ مبینہ امتیازی سلوک نہیں جو بیان کیا جاتا ہے بلکہ بھارتی مسلمانوں کی اکثریت اس لیے غریب ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت امیر اور متوسط طبقے کے بیشتر مسلمان تو پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کا دعویٰ ہے کہ بھارتی معاشرہ برداشت اور رواداری جیسی صفات میں دنیا بھر میں سرِ فہرست ہے۔


'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ ان تمام حقائق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی اور امتیازی سلوک کے دعویٰ درست نہیں اور بھارت کی اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ ملک کے 17 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو ابدی مظلوم قرار دینے کا رویہ اب ترک کردے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت کے سیاسی طبقے کی جانب سے مسلمانوں کو سیاست اور اعلیٰ تعلیم میں زیادہ مواقع دینے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں لیکن اس کے لیے مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کے لیے ساڑھے چار فی صد کوٹہ مختص کرنا ٹھیک نہیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے کوٹہ سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے 'میرٹ' کی نفی ہوتی ہے اور معاشرے میں تقسیم بڑھتی ہے۔ اخبار کے مضمون نگار کے بقول بھارت میں بسنے والے مسلمان سب سے پہلے بھارتی شہری ہیں اور انہیں معاشرے میں ضم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حکومت انہیں ایک مذہبی اکائی سمجھنے کے بجائے ان کے ساتھ عام شہریوں جیسا برتائو کرے۔

ادھر جرمنی کی ایک عدالت نے حال ہی میں مسلمان اور یہودی بچوں کے ختنے پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے جس پر نہ صرف جرمنی بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی تنقید کی جارہی ہے۔

اس موضوع پر اپنے ایک اداریے میں اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ یورپ کی اپنی مالی مشکلات پہلے ہی کیا کم تھیں کہ اس نے مسلمانوں اور یہودیوں کے ہاں صدیوں سے رائج مذہبی روایت کے خلاف محاذ چھیڑ کر ایک نئی مصیبت مول لی ہے۔
جرمن عدالت کے فیصلے پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے بھی احتجاج کیا ہے
جرمن عدالت کے فیصلے پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے بھی احتجاج کیا ہے

اخبار لکھتا ہے کہ گو کہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے عدالتی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور جرمن پارلیمنٹ نے بھی ایک قرارداد کے ذریعےاس کو جائز قرار دینے کے لیے قانون سازی کی سفارش کی ہے، لیکن اس کےباوجود یورپ میں جرمن عدالت کے فیصلے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ جرمن عدالت کا فیصلہ انتہا پسند اور بے حس سیکولر ازم کی ایک مثال ہے جس میں عالمی طور پر اس کےتسلیم شدہ طبی فوائد سے بھی صرفِ نظر کیا گیا ہے۔

اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے بچوں کا ختنہ مستقبل میں انہیں کئی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس عمل میں کسی پیچیدگی کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ختنے کے نتیجے میں 'ایڈز' سمیت کئی دیگر جنسی بیماریوں کا امکان 60 فی صد تک گھٹ جاتا ہے
واشنگٹن پوسٹ


اخبار کے مطابق تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس کے نتیجے میں 'ایڈز' سمیت کئی دیگر جنسی بیماریوں کا امکان 60 فی صد تک گھٹ جاتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ یہ بات جرمن عدالت کو اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے تھی کہ خود عالمی ادارہ صحت اور 'ایڈز' کے سدِ باب کے لیے سرگرم دیگر ادارے ان 14 افریقی ممالک میں اس رسم کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جہاں 'ایڈز' کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' نے امید ظاہر کی ہے کہ صدیوں سے رائج اس روایت کے خلاف یورپ نے جس تنازع کو جنم دیا ہے وہ وہیں تک محدود رہے گا اور اس سے ایڈز کے خلاف جاری عالمی کوششوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
XS
SM
MD
LG