پاکستان کے ایک بڑے صحافتی ادارے 'جنگ گروپ' کے مالک میر شکیل الرحمٰن، پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں 100 روز سے جیل میں ہیں۔ تاہم اب تک اُن کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن کو 12 مارچ کو اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے خلاف تحقیقات کے لیے نیب لاہور کے دفتر گئے تھے۔
پاکستان کے صحافتی اور بعض سیاسی حلقے میر شکیل الرحمٰن کی طویل عرصے سے گرفتاری پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
'جنگ گروپ' سے وابستہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو حکومت کی ناقص پالیسیوں کا پردہ فاش کرنے پر جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا ہے۔
پاکستان کے صحافتی حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ مؤقف ہے کہ پاکستان میں جو بھی ادارہ یا شخص ریاستی یا حکومتی بیانیے سے ہٹ کر آزاد رائے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندیوں کی شکایات عام ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) کی جانب سے 2020 میں جاری کیے گئے 'پریس فریڈم انڈیکس' میں پاکستان کا 145 واں نمبر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے 'جیو نیوز' کے کچھ پروگرام حکومت کو پسند نہیں تھے۔ لہذٰا میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر کے اُنہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سے قبل بھی 'جیو نیوز' اور جنگ اخبار سمیت مختلف صحافتی ادارے سنسر شپ کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے سینئر صحافی حسین نقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔ اُن کے بقول میڈیا کے خلاف اقدامات کا آغاز 1948 میں قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی ہو گیا تھا۔ لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں سے شائع ہونے والے اخبار بند کر دیے گئے تھے۔
حسین نقی کے بقول پاکستان میں ہر حکومت میڈیا کو آزادی دینے کے دعوے کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان سمیت دیگر حکمرانوں نے بھی یہی دعوے کیے، لیکن بعد میں اس سے انحراف کرتے رہے۔
'میڈیا کو میڈیا نے بھی نقصان پہنچایا'
حسین نقی کہتے ہیں کہ صرف حکومتوں یا اداروں کو ہی الزام دینا مناسب نہیں۔ پاکستان میں میڈیا نے خود بھی اپنا نقصان کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب بھی کوئی میڈیا گروپ ریاستی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو اس کا حریف میڈیا گروپ بھی اسے نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتا۔
حسین نقی کے بقول میر شکیل الرحمٰن کی نیب میں حراست کے معاملے پر بھی 'جیو ٹی وی' کے مخالف میڈیا ہاؤسز نے اُنہیں ٹرائل سے قبل ہی قصوروار ٹھیرا دیا جس سے پاکستان میں میڈیا اداروں میں پائی جانے والی تقسیم بھی واضح ہوتی ہے۔
'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے حارث خلیق کہتے ہیں کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری درحقیقت پاکستان میں اظہار رائے پر قدغن کی ایک اور مثال ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی کہ میر شکیل الرحمٰن کے مالی یا کاروباری معاملات کس حد تک درست ہیں۔ لیکن ان کی گرفتاری یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں یا حکومتوں کو پسند نہ آنے والی ہر آواز دبانے کی کوشش کی جائے گی۔
حارث خلیق کے بقول نیب کے جو بھی معاملات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ اگر یہ 34 سال پرانا کیس ہے تو پھر اس کے شواہد جمع کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
حارث خلیق کہتے ہیں کہ کوئی ملک اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے جتنی اس کی صحافت مضبوط ہوتی ہے۔ اسے لیے صحافت کو ریاست کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنا ہی ستون گرا دیں گے تو ریاست عدم توازن کا شکار ہو گی۔ لہذٰا ریاست کی بقا کے لیے میڈیا کی آزادی ضروری ہے۔
پاکستان میں میڈیا پر ریسرچ کرنے والے ادارے 'میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ کہتے ہیں کہ کیس بنانے سے قبل کسی کو بھی گرفتار کر لینا نیب کا معمول بن چکا ہے۔ اُن کے بقول پہلے یہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ہوتا تھا اور اب یہ میڈیا کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
اسد بیگ کہتے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل بارہا میر شکیل الرحمٰن اور جیو کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو وقتاً فوقتاً میر شکیل الرحمٰن اور جیو کو اُن کے بقول نواز شریف کا ساتھ دینے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ لہذٰا یہ گرفتاری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
سینئر قانون دان اکرم شیخ کہتے ہیں کہ میر شکیل الرحمٰن پر بظاہر یہ الزام ہے کہ اُنہیں پلاٹ کا ایک بڑا قطعہ ایک ساتھ الاٹ کیا گیا۔ یعنی ایک ترتیب میں اُنہیں پلاٹ الاٹ کیے گئے جو نیب کے بقول اُس وقت کی حکومت نے اُنہیں بطور رشوت دیے۔
خیال رہے کہ نیب نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی اس کیس میں طلب کیا تھا جب کہ حاضر نہ ہونے پر اُن کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
اکرم شیخ کے بقول اگر نیب کو اس معاملے میں کوئی شبہ ہے تو میر شکیل الرحمٰن سے کاغذات یا متعلقہ ریکارڈ طلب کرے۔ اگر نیب مطمئن نہ ہو تو اُنہیں دوبارہ نوٹس دیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انکوائری کے مرحلے پر ہی کسی کو گرفتار کر لیا جائے یہ غیر آئینی اقدام ہے۔
سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ نیب قوانین کی شق 18 اور 24 کے تحت شواہد ملنے پر ملزم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لہذٰا اس میں کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
اظہر صدیق کہتے ہیں کہ نیب عدالت کے جج نے میر شکیل الرحمٰن کا جسمانی ریمانڈ دیا۔ بعدازاں اُنہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ اب اُن کی درخواست ضمانت لاہور ہائی کورٹ میں ہے۔ لہذٰا عدالت کو اگر اُن کی گرفتاری میں کوئی غیر قانونی اقدام نظر آیا تو وہ اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔
اظہر صدیق کے بقول نیب قوانین 1985 کے بعد کسی بھی مقدمے میں گرفتاری کی اجازت دیتے ہیں۔ لہذٰا یہ کہنا کہ 34 سالہ پرانے کیس کو سیاسی بنیادوں پر متحرک کیا گیا بلاجواز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل کی گرفتاری کے معاملے کو میڈیا کی آزادی یا اظہار رائے پر قدغن سے جوڑنا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ یہ ساری کارروائی ملک کے آئین اور قانون کے مطابق ہو رہی ہے۔
نیب اور حکومت کا مؤقف
نیب کے مطابق میر شکیل الرحمٰن پر سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف سے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں جرنلسٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے مختص 54 کنال اراضی کے پلاٹ بطور رشوت لینے کا الزام ہے جب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔
وائس آف امریکہ کو واٹس ایپ پیغام میں دیے گئے ردِعمل میں ترجمان نیب نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ نیب اور ملزم دونوں نے عدالت میں اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن 29 جون تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
اس سے قبل نیب کا یہ مؤقف رہا ہے کہ نیب قوانین چیئرمین نیب کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ انکوائری کے دوران بھی ملزم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لہذٰا نیب ہر اقدام آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کرتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کا اس کیس میں یہ مؤقف رہا ہے کہ نیب ایک خود مختار ادارہ اور ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔ لہذٰا یہ کہنا کہ یہ سب حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے بلا جواز ہے۔