توہین مذہب کے الزام میں عبدالوالی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خیبرپختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 7 فروری کو سنایا جائے گا
عبدالوالی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو اس کے ساتھی طالب علموں اور یونیورسٹی کے ملازمین نے پچھلے سال13 ایرپل کو تشدد کر کے قتل کر دیا تھا، جس کی ملک بھر کی مختلف سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اس قتل کی شدید مذمت کی گئی تھی۔
بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر ہری پور سینٹرل جیل کے احاطے میں مقدمے کی سماعت پچھلے ستمبر میں اس وقت شروع ہوئی جب مشال خان کے والد نے مردان میں سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر مقدمے کی پیروی سے معذوری ظاہر کی تھی اور عدالت سے مقدمے کی سماعت ہری پورجیل میں منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران لگ بھگ 57 ملزموں اور 50 سے زیادہ گواہوں کے بیانات مکمل کیے گئے جبکہ اس دوران 57 ملزمان کے وکلاء نے بھی گواہوں پر جرح کی اور ملزمان کی صفائی میں دلائل پیش کئے۔
مشال خان کے والد کی پیروی پانچ وکلاء پر مشتمل ایک پینل نے کی ۔
پینل میں شامل ایک وکیل فضل خان کے مطابق 57 ملزموں میں سے لگ بھگ ایک درجن نے جزوی طور پر اپنے جرم یا جرم میں شریک ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
مشال خان کو قتل کرنے والے چار ملزم ابھی تک رو پوش ہیں جن میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک تحصیلدار بھی شامل ہیں۔