لگ بھگ تمام امریکی اس بارے میں اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ غلط معلومات کا بڑے پیمانے پر تیز تر پھیلاو ایک مسئلہ بن چکا ہے۔
زیادہ تر کا خیال یہ بھی ہے کہ اس صورتحال کا بہت سا الزام سوشل میڈیا کمپنیاں، اور ان معلومات کو استعمال کرنے والوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔ لیکن پئیرسن انسٹی ٹیوٹ اور ایسو سی ایٹڈ پریس-نورک سنٹر فار پبلک افئیرز ریسرچ کے ایک نئے جائزے کے مطابق چند ایک کو اس بارے میں سخت تشویش ہے کہ کہیں وہ خود تو اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
جائزے میں شامل 95 فیصد امریکیوں نے نشاندہی کی کہ اہم معلومات تک رسائی کی ان کی کوشش کے دوران غلط معلومات ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتی ہیں۔ تقریباً نصف نے اس کا الزام امریکی حکومت پر اور لگ بھگ تین چوتھائی نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں اور ٹکنالوجی کی کمپنیوں پر عائد کیا۔ تاہم، ہر دس امریکیوں میں سے صرف دو نے کہا کہ انہیں سخت تشویش ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر غلط معلومات کو آن لائن پھیلایا ہے۔
مزید یہ کہ لگ بھگ ہر دس میں سے چھ کو قدرے تشویش ہے کہ ان کے دوست اور اہل خانہ اس مسئلے کا حصہ رہ چکے ہیں۔
لیکزنگٹن،کینٹکی کی 33 سالہ گریجوایٹ اسٹوڈنٹ کارمین سپیلر کے لئے یہ فرق اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ اپنے قریبی اہل خانہ کے ساتھ کورونا وائرس کی وبا پر بات کرتی ہیں۔ سپیلر،کویڈ 19 ویکسینزپر اعتماد رکھتی ہیں؛ ان کی فیملی نہیں رکھتی۔ سپیلر کا خیال ہےکہ ان کے خاندان نے ٹی وی پر جو غلط معلومات دیکھی ہیں یا قابل اعتراض نیوز ویب سائٹس پر پڑھی ہیں، وہ کویڈ 19 کے خلاف ویکسین نہ لگوانے کے ان کےفیصلے کا موجب بنی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے اہل خانہ سمجھتے ہیں کہ کویڈ 19 کے بارے میں اسپیلر کاحکومت کی معلومات پر بھروسہ کرنا ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے ۔
SEE ALSO: یوٹیوب کا ویکسین سے متعلق گمراہ کن معلومات بلاک کرنے کا اعلانسپیلر کا کہناہے کہ،" مجھے لگتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میری معلوما ت غلط ہیں۔ اور حکومت جو کہتی ہے میں اس پر اندھا دھند عمل کرتی ہوں،مجھے ایسا کچھ بہت زیادہ سننے کو ملتا ہے ۔اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کی وجہ سے میری اپنے خاندان اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بھی بہت زیادہ کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے ۔
سپیلر وہ واحد امریکی نہیں ہیں جنہیں ممکنہ طور پر اپنے خاندان کے ساتھ ایسے اختلافات درپیش ہیں ۔
سروے سے ظاہر ہوا کہ 61 فیصد ری پبلکنز نے کہا کہ غلط معلومات کے پھیلاو کی بہت زیادہ ذمہ داری امریکی حکومت پر عائد ہوتی ہے جب کہ صرف 38 فیصد ڈیمو کریٹس نے ایسا کہا ۔
تاہم، غلط معلومات کے پھیلاو میں فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب سمیت،سوشل میڈیا کے کردار کے بارے میں دونوں جماعتوں کےدرمیان زیادہ اتفاق رائے موجود ہے۔
رائے عامہ کےجائزے کے مطابق 79 فیصد ری پبلکنز اور 73 فیصد ڈیمو کریٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر غلط معلومات پھیلانے کی بہت زیادہ یا خاصی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اور امریکیوں میں اس قسم کا شاذ ونادر دوجماعتی اتفاق رائے فیس بک جیسی ٹکنالوجی کی بڑ ی کمپنیوں کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، جو سوشل میڈیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ نفع بخش پلیٹ فارم ہے، اور جو، ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ اراکین اسمبلی دونوں ہی کی جانب سے تنقید کی زدمیں ہے ۔
یونیورسٹی آف شکاگو میں پبلک پالیسی کی ایک پروفیسر،کونسٹین ٹن سونین، جو پئیرسن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں،کہتی ہیں کہ،"اے پی- نارک کے جائزے میں فیس بک کے لئے بری خبر یہ ہے کہ ،اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فیس بک پر تنقید کا دائرہ بہت وسیع ہے،اس کے باوجود کہ کانگریس برابر برابر تقسیم ہے اور ہر فریق کے اپنے جواز ہیں ۔
منگل کے روز کانگریس کی ایک سماعت کے دوران کمپنی کی ایک سابقہ ملازم کی جانب سے اس شہادت کے بعد کہ کمپنی کی خود اپنی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سسٹم غلط معلومات اور بچوں کو نقصان پہنچانے والے مواد کو ہوا دیتا ہے۔ سینیٹرز نے فیس بک پر نئےضابطوں کے نفاذ کا عزم ظاہر کیا۔
صارفین کے تحفظ سے متعلق سینیٹ میں کامرس کی ذیلی کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران کانگریس کےڈیمو کریٹک رکن، سینیٹر رچرڈ بلومینتھال نے کہا کہ فیس بک نے غلط معلومات کے پھیلاو اور نفرت کے بیج بو کر فائدہ اٹھایا ہے۔ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ارکان نے سماعت کا اختتام کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ فیس بک جس انداز میں اپنے مواد کو پھیلاتا اور انہیں استعمال کرنے والوں کو ہدف بناتا ہے، انہیں تبدیل کرنے کے لئے ضابطے متعارف کرائےجانے چاہئیں۔
رائے عامہ کے اس جائزے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امریکی اپنے سوا ہر ایک کو غلط معلومات پھیلانے کا الزام دیتے ہیں۔ جائزے میں شامل 53 فیصد امریکیوں نے کہا کہ انہیں اس بارے میں تشویش نہیں ہے کہ انہوں نے یہ معلومات پھیلائی ہیں۔
وینڈر بلٹ یونیورسٹی کی نفسیات کی پروفیسر لیزا فازیو کہتی ہیں کہ بیشتر لوگ اس میں اپنے کسی عمل دخل کو تسلیم نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود نہیں بلکہ دوسرے لوگ ان معلومات کے جھانسے میں آکر انہیں پھیلاتے ہیں۔
اے پی اور نارک کی جانب سے امریکی آبادی کی نمائندگی سے متعلق ڈیزائن کئے گئے نورک کے ایک پینل، 'امیری سپیک' کے بنائے گئے ایک سامپل کے استعمال کے ساتھ، ستمبر میں کئے گئے اس سروے میں ایک ہزار اکہتر بالغ امریکیوں کو شامل کیا گیا تھا اور اس کی سامپلنگ میں 3٫9 فیصد پلس یا مائنس غلطی کی گنجائش موجود ہے۔