سندھ ہائی کورٹ نے چار مختلف آئینی درخواستوں پر جواب جمع نہ کرانے اور ذاتی طور پر طلبی کے باوجود بھی عدالت میں پیش نہ ہونے پر وفاقی سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
یہ وارنٹ گرفتاری ان عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر جاری کیے گئے ہیں جس میں وفاقی سیکرٹری داخلہ کو خیبر پختونخوا میں قائم حراستی مراکز کی تفصیلات جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔
جمعرات کو سماعت کے دوران جاری کیے گئے عدالتی حکم کے مطابق 13 جنوری کو وفاقی سیکریٹری داخلہ کو کراچی سے لاپتا ان افراد سے متعلق تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن تین فروری کو کیس کی دوبارہ سماعت کے موقع پر بھی عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔
پانچ مارچ کو کیس کی ایک بار سماعت پر وفاقی وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری طاہر احسان کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ حراستی مراکز خیبر پختونخوا حکومت کے زیرِ انتظام ہیں اور وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت سے رابطہ کیا ہے جس کے جواب کا انتظار ہے۔
تاہم ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی لاپتا شخص سید علی مہدی نقوی کے بارے میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ جیسی اہم پوسٹ پر تعینات شخص بھی حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی تفصیلات پیش کرنے میں بے بس رہا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت خیبر پختونخوا کے حراستی مراکز سے متعلق یہ آئینی درخواست زیرِ سماعت ہے کہ آیا ان حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کو لاپتا افراد سمجھا جائے یا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت نے اسی طرح کا حکم شہری اللہ بخش اور اس کے تین ساتھیوں کی گمشدگی سے متعلق آئینی درخواست میں بھی جاری کیا ہے۔ جو گزشتہ چار برس سے لاپتا ہیں۔
گزشتہ سماعت کے موقع پر بھی اللہ بخش کی بیوی نے کمرۂ عدالت میں دہائی دی کہ ان کے شوہر کو رہا کرایا جائے کیوں کہ وہ گھر کے واحد کفیل ہیں اور ان کی گمشدگی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک چکا ہے۔
درخواست گزار آسیہ ( اصل نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے عدالت کو بتایا کہ ان کے گھر میں اس قدر وسائل بھی نہیں کہ وہ ہر سماعت کے موقع پر ہائی کورٹ آنے جانے اور وکیل کے اخراجات برداشت کر سکیں جس پر عدالت نے پولیس کو متاثرہ خاندان کی مدد کرنے اور ان کے شوہر کی بازیابی ممکن بنانے کا بھی حکم دیا تھا۔
'سیکریٹری کو لاپتا افراد کی بازیابی میں کوئی دلچسپی نہیں'
عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ نے اگلی سماعت پر بھی خود پیش ہونے کے ساتھ ایڈیشنل یا جوائنٹ سیکریٹری کو بھی عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ ڈپٹی سیکریٹری کو وفاق کی نمائندگی کے لیے بھیجا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں لاپتا افراد کی بازیابی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور نہ ہی انہیں عدالتی حکم کا احترام ہے۔
عدالت کا مزید کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سیکریٹری داخلہ ان معاملات میں بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں جہاں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہو۔ عدالت نے اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے مسلسل غیر حاضری کی وجہ دریافت کی ہے۔
عدالتی حکم نامہ آئی جی اسلام آباد کو بھی بھیجنے کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ 27 تاریخ کو آئندہ سماعت کے موقع پر سیکریٹری داخلہ کی سندھ ہائی کورٹ کے سامنے پیشی کو ممکن بنائیں۔
سندھ میں اس وقت 341 افراد لاپتا ہیں؛ پولیس
ادھر سندھ پولیس نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبے میں اس وقت لاپتا افراد کی تعداد 341 ہے۔ یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کے کیسز سننے والے بینچ کے روبرو پیش کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق کراچی سے اس وقت کل 307 افراد لاپتا ہیں جب کہ حیدرآباد سے 17، سکھر سے نو، لاڑکانہ سے سات اور میرپور خاص سے بھی ایک شخص کو پولیس نے لاپتا قرار دیا ہے۔
پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ ان افراد کا ڈٰیٹا ہے جن کے بارے میں اب تک کوئی معلومات نہیں مل سکیں ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
ملک میں جبری گمشدگی پر قائم کمیشن آف انکوائری سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے اب تک صوبہ سندھ سے جبری گمشدگیوں کے 1643 کیسز سامنے آئے ہیں۔ جن میں سے 37 کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ حراستی مراکز میں قید ہیں۔ 248 جیلوں میں جب کہ 55 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس طرح مجموعی طور پر کمیشن صوبۂ سندھ سے 1029 افراد کا سراغ لگانے میں کامیاب رہا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کابینہ کی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بل منظور کر لیا ہے۔ پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کافی عرصے سے کیا جا رہا تھا اور اس بارے میں قانون سازی کئی برسوں سے زیر التوا تھی۔