وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں بلوچستان کے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتی، میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ لا پتہ ہوجانے والوں کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہے؟ اور میں انہیں بتانا چاہتی تھی کہ ۔۔۔۔
’آپ لوگوں کو کیا فکر کہ ہمارے ہاں لوگ خوف و ہراس کی کس فضاء میں سانس لینے پر مجبور ہیں؟ کیسے جیتے ہیں؟ کتنے برسوں سے اداسی ان کی منڈیروں پر بال بکھرائے بیٹھی ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں ایسا ظلم ہو تو میں آپ سے پوچھوں کہ کیسا لگتا ہے؟‘ ۔۔۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے کھڑکی سے باہر گرتی بوندیں سیدھا میرے دل پر برسنے لگیں۔ بارش سے ایسی وحشت پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے افسوس ہونے لگا کہ میں نے انجانے میں ایک شخص کے زخموں کو کرید ڈالا۔۔۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں بلوچستان کے حالات کا اندازہ نہیں کر سکتی، میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ لا پتہ ہوجانے والوں کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔
اور میں انہیں بتانا چاہتی تھی کہ میں نے اس دُکھ کی سفاکی بہت قریب سے دیکھی ہے۔۔۔ آج سے چند برس پہلے کی بات ہے جب میں نے رپورٹنگ میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔ اسلام آباد میں ’ایکسپریس نیوز‘ کے دفتر میں مجھے ’فادرز ڈے‘ پر ایک ٹی وی رپورٹ بنانے کے لیے کہا گیا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ رپورٹ میں کیا نیا انداز اختیار کیا جائے؟ اُن دنوں آمنہ مسعود جنجوعہ صاحبہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کافی سرگرم تھیں۔ آمنہ سے بات ہوئی تو انہوں نے ایک خاتون کا نمبر دیا جن کے شوہر کئی برسوں سے لاپتہ تھے اور ان کا ایک بیٹا ان کے لاپتہ ہونے کے سات ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ ڈھائی سالہ حذیفہ خوبصورت اور پُھرتیلا بچہ تھا۔ اپنی چھوٹی سی سائیکل پر ادھر سے ادھر کھیلتا پھر رہا تھا۔ حذیفہ کے دو بڑے بھائی تھے جن کے نام اب ذہن میں نہیں۔ مگر وہ بچے بھی کم عمر ہی تھے، غالبا چھٹی اور آٹھویں جماعت کے طالبعلم۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بڑے بھائی سے جب میں نے بات کی تو اس نے کس دکھ سے بتایا تھا، ’ہمارے ابو پچھلے پانچ برسوں سے لاپتہ ہیں۔ میں اس وقت تیسری جماعت میں تھا۔ مجھے ابو تھوڑے تھوڑے یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کیسے ہمارے ساتھ کھیلتے تھے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرتے تھے۔ مگر مجھے حذیفہ کا دکھ ہوتا ہے کہ اس نے تو والد صاحب کو دیکھا ہی نہیں، انکا لمس محسوس ہی نہیں کیا۔۔۔‘ میں کتنی ہی دیر تک حیران نظروں سے اس بارہ تیرہ سال کے بچے کو دیکھتی رہی جسے وقت کی ستم ظریفی نے اپنی عمر سے کتنا بڑا کر ڈالا تھا۔
ثمینہ (بچوں کی والدہ) سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ، ’میرے شوہر پانچ ساڑھے پانچ سال قبل دفتر سے گھر آتے ہوئے غائب ہوگئے تھے۔ آج تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں موصول ہوئی۔ ہم نے اپنی طرف سے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی۔ ہر ممکن کاوش کی۔ حکومت سے لے کر عدالت تک سب کے دروازے کھٹکھٹائے۔ مگر کہیں بھی ہماری شنوائی نہ ہوئی۔۔۔‘‘ آنکھوں میں آتی نمی کو دوپٹے میں سمیٹتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوئیں، ’’ان کے جانے کے بعد میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا غم حذیفہ بن گیا ہے۔ خوشی اس لیے کہ اس نے ہمارا گھرانا مکمل کیا اور غم اس لیے کہ اس کی پیدائش کے بارے میں اس کے والد لاعلم ہیں۔ جس وقت وہ لاپتہ ہوئے اس وقت تک ہم یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ میں اُمید سے ہوں۔۔۔‘
میں ثمینہ کو کوئی وعدہ کوئی تسلی نہیں دے سکی تھی۔ میرے پاس تو ان کے لیے دو لفظ تک نہ تھے۔۔۔ ننھا حذیفہ اپنی ماں کی باتوں کے دوران مجھ سے کھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہتا، کبھی میرے بیگ میں گھس جاتا اور کبھی میری گود میں آکر بیٹھ جاتا۔۔۔ ثمینہ بولیں، ’ مدرز ڈے یا فادرز ڈے پر ایک نیوز رپورٹ بنانے سے ہماری تشفی ممکن نہیں۔ آپ لوگ اپنے اخباروں اور ٹی وی چینلز کا پیٹ بھرنے کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں اور پھر پلٹ کر خبر تک نہیں لیتے کہ ہم جیتے ہیں یا مر گئے ہیں۔۔۔‘ اُس وقت مجھے ثمینہ کی یہ باتیں کڑوی لگی تھیں اور غصہ بھی آیا تھا۔ لیکن آج اتنے برسوں کے بعد اس واقعے کو دہراتے ہوئے خیال آرہا ہے کہ اس دن کے بعد میں نے دوبارہ کبھی بھی ثمینہ یا حذیفہ کی خبر گیری کی کوشش نہیں کی۔۔۔ میری رپورٹ بن گئی تھی اور سبھی سے فادرز ڈے کو اچھوتے انداز میں بیان کرنے پر شاباشی بھی ملی تھی۔۔۔ مگر کیا حذیفہ کو اس کا باپ ملا تھا؟ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔۔۔
’بلوچستان کے مسائل اور دکھ سمجھنے کے لیے ایک گداز دل چاہیئے۔ آپ لوگ ہمارے دکھوں کی نوعیت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔۔۔‘ سہراب اکرام (نام بدل دیا گیا ہے) کی بات مجھے یکدم راولپنڈی میں بنّی کے تنگ محلے سے واپس واشنگٹن میں اپنے دفتر لے آئی۔۔۔ سہراب ہمارے ریڈیو کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ہماری دفتری روایات کے مطابق پروگرام کے بعد مہمان کو اسٹوڈیو کے بعد دفتر لایا گیا تھا۔ میں اور میرے کچھ ساتھی ان کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ ہم سبھی بلوچستان کے حالات ایک ایسے شخص کی زبانی سننے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ابھی ابھی وہاں سے آیا تھا۔ انہیں چائے پیش کی گئی اور ہم سبھی اس کھڑکی کے گرد کھڑے ہو گئے جہاں سہراب صاحب بیٹھے تھے اور پس منظر میں بارش برس رہی تھی۔
سہراب صاحب نے بتایا کہ، ’شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب ہمارے شہر کے کسی گلی محلے سے کوئی فرد اٹھایا یا پراسرار طور پرغائب نہ کر دیا جاتا ہو۔۔۔‘ ’لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟‘ میرے سوال پر سہراب اکرام کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری اور وہ بولے، ’ ہونا کیا ہے، اگر آپ زیادہ خوش نصیب ہوں تو چند روز یا چند ماہ بعد یہ اطلاع موصول ہو جاتی ہے کہ فلاں پہاڑ کے دامن میں آپ کے بیٹے یا بھائی کی گولیوں زدہ لاش پڑی دکھائی دی ہے۔ آدھی لاش کو جانور بھنبھوڑ چکے ہیں، جلدی جا کر اپنے جگر گوشے کی باقیات سنبھال لیجیئے۔ یا پھر کوئٹہ کی کسی تنگ و تاریک اور ویران گلی میں گلے اور جسم پر تشدد کے نشانات والی لاش کی اطلاع صبح کے تین چار بجے موصول ہوجاتی ہے۔۔۔ کوئٹہ کی ہر گلی میں، ہر گھر میں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو دفناتے دفناتے تھک گئے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ہمارے بیٹے اور بھائی کو کیوں اٹھایا گیا، کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے؟۔۔۔ آپ یقین کیجیئے کوئٹہ کی گلیوں میں اب لوگ نہیں بستے بلکہ نفسیاتی مریض اپنی سانسیں پوری کر رہےہیں۔‘
سہراب صاحب خود تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے بہت سےایسے سوال چھوڑ گئے جن کے جواب ہمارے پاس نہ تھے۔۔۔ اتفاق سے اگلے ہی روز نو مئی کو ٹی وی پر چلتی ایک’بریکنگ نیوز‘ پر نظر پڑی۔ سابق وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی رو رہے تھے، ’ اگر آج رات تک حیدر گیلانی ہمیں نہیں ملتا تو میں اپنے علاقے میں الیکشن نہیں ہونے دوں گا۔‘ ۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ علی حیدر گیلانی کو انتخابات کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ سے اغواء کر لیا گیا تھا۔ اگلے روز یوسف رضا گیلانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں نے ڈی جی آئی ایس آئی، فوج کے سربراہ، صدر صاحب، نگراں وزیر ِ اعظم، نگراں وزرائے اعلیٰ، ہوم منسٹررز وغیرہ سے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے بات کی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آئی ایس آئی اس سلسلے میں ہماری مدد کرے۔‘‘
نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے یوسف رضا گیلانی کا دورِ حکومت اور لاپتہ افراد کے اہل ِ خانہ کے وہ لاتعداد جلوس بھی آ گئے جو کبھی سپریم کورٹ تو کبھی پارلیمنٹ اور کبھی اسلام آباد کے کسی اور کونے میں نکالے گئے۔۔۔ شاید اس لیے کہ ان کی رسائی اپنے ملک کے صدر، آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی تک نہ تھی۔۔۔ نہ جانے کیوں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہاتھوں میں اٹھائی گئی تصویریں اور آنکھوں کی نمی مجھے اس نمی سے مختلف نہ لگی جو یوسف رضا گیلانی اور ان کے دیگر بیٹوں کی آنکھوں میں دکھائی دی۔۔۔ اور دل کے کسی کونے سے بے اختیار آواز اٹھی، ’گیلانی صاحب، کاش آپ نے اپنے دور ِ اقتدار ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہوتی جن کے پیارے برس ہا برس سے غائب ہیں تو شاید آج قدرت آپ کو یہ دن نہ دکھاتی۔۔۔‘
مدیحہ انور ۔ فیس بک پیج
مدیحہ انور ۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ
ثمینہ (بچوں کی والدہ) سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ، ’میرے شوہر پانچ ساڑھے پانچ سال قبل دفتر سے گھر آتے ہوئے غائب ہوگئے تھے۔ آج تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں موصول ہوئی۔ ہم نے اپنی طرف سے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی۔ ہر ممکن کاوش کی۔ حکومت سے لے کر عدالت تک سب کے دروازے کھٹکھٹائے۔ مگر کہیں بھی ہماری شنوائی نہ ہوئی۔۔۔‘‘ آنکھوں میں آتی نمی کو دوپٹے میں سمیٹتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوئیں، ’’ان کے جانے کے بعد میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا غم حذیفہ بن گیا ہے۔ خوشی اس لیے کہ اس نے ہمارا گھرانا مکمل کیا اور غم اس لیے کہ اس کی پیدائش کے بارے میں اس کے والد لاعلم ہیں۔ جس وقت وہ لاپتہ ہوئے اس وقت تک ہم یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ میں اُمید سے ہوں۔۔۔‘
’بلوچستان کے مسائل اور دکھ سمجھنے کے لیے ایک گداز دل چاہیئے۔ آپ لوگ ہمارے دکھوں کی نوعیت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔۔۔‘ سہراب اکرام (نام بدل دیا گیا ہے) کی بات مجھے یکدم راولپنڈی میں بنّی کے تنگ محلے سے واپس واشنگٹن میں اپنے دفتر لے آئی۔۔۔ سہراب ہمارے ریڈیو کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ہماری دفتری روایات کے مطابق پروگرام کے بعد مہمان کو اسٹوڈیو کے بعد دفتر لایا گیا تھا۔ میں اور میرے کچھ ساتھی ان کے گرد اکٹھے ہو گئے کہ ہم سبھی بلوچستان کے حالات ایک ایسے شخص کی زبانی سننے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ابھی ابھی وہاں سے آیا تھا۔ انہیں چائے پیش کی گئی اور ہم سبھی اس کھڑکی کے گرد کھڑے ہو گئے جہاں سہراب صاحب بیٹھے تھے اور پس منظر میں بارش برس رہی تھی۔
سہراب صاحب نے بتایا کہ، ’شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب ہمارے شہر کے کسی گلی محلے سے کوئی فرد اٹھایا یا پراسرار طور پرغائب نہ کر دیا جاتا ہو۔۔۔‘ ’لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟‘ میرے سوال پر سہراب اکرام کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری اور وہ بولے، ’ ہونا کیا ہے، اگر آپ زیادہ خوش نصیب ہوں تو چند روز یا چند ماہ بعد یہ اطلاع موصول ہو جاتی ہے کہ فلاں پہاڑ کے دامن میں آپ کے بیٹے یا بھائی کی گولیوں زدہ لاش پڑی دکھائی دی ہے۔ آدھی لاش کو جانور بھنبھوڑ چکے ہیں، جلدی جا کر اپنے جگر گوشے کی باقیات سنبھال لیجیئے۔ یا پھر کوئٹہ کی کسی تنگ و تاریک اور ویران گلی میں گلے اور جسم پر تشدد کے نشانات والی لاش کی اطلاع صبح کے تین چار بجے موصول ہوجاتی ہے۔۔۔ کوئٹہ کی ہر گلی میں، ہر گھر میں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو دفناتے دفناتے تھک گئے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ہمارے بیٹے اور بھائی کو کیوں اٹھایا گیا، کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے؟۔۔۔ آپ یقین کیجیئے کوئٹہ کی گلیوں میں اب لوگ نہیں بستے بلکہ نفسیاتی مریض اپنی سانسیں پوری کر رہےہیں۔‘
نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے یوسف رضا گیلانی کا دورِ حکومت اور لاپتہ افراد کے اہل ِ خانہ کے وہ لاتعداد جلوس بھی آ گئے جو کبھی سپریم کورٹ تو کبھی پارلیمنٹ اور کبھی اسلام آباد کے کسی اور کونے میں نکالے گئے۔۔۔ شاید اس لیے کہ ان کی رسائی اپنے ملک کے صدر، آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی تک نہ تھی۔۔۔ نہ جانے کیوں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہاتھوں میں اٹھائی گئی تصویریں اور آنکھوں کی نمی مجھے اس نمی سے مختلف نہ لگی جو یوسف رضا گیلانی اور ان کے دیگر بیٹوں کی آنکھوں میں دکھائی دی۔۔۔ اور دل کے کسی کونے سے بے اختیار آواز اٹھی، ’گیلانی صاحب، کاش آپ نے اپنے دور ِ اقتدار ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہوتی جن کے پیارے برس ہا برس سے غائب ہیں تو شاید آج قدرت آپ کو یہ دن نہ دکھاتی۔۔۔‘
مدیحہ انور ۔ فیس بک پیج
مدیحہ انور ۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ