پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتا ہونے والے 20 افراد رواں سال بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
ان افراد کا تعلق بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ،خاران، گوادر، قلات، ڈیرہ بگٹی اور مکران ڈویژن سے ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بازیاب ہونے والے افراد کے گھروں میں خوشی کا سماں ہے۔ لواحقین نے اپنے عزیزوں کے خیریت سے گھر پہنچنے پر سکھ کا سانس لیا۔
ذرائع کے مطابق فروری 2019 میں لاپتا افراد کی تنظیم نے بلوچستان حکومت کو تصدیق شدہ 590 افراد کی فہرست فراہم کی تھی جن میں سے اب تک 315 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔
تنظیم کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ بازیاب ہونے والے افراد میں 8 سال سے لاپتا رب نواز، بابو حسن جان، شمس بنگلزئی، ثنا اللہ ابابکی، عبید عارف، امین شکاری، عرفان بلوچ سمیت ڈیرہ بگٹی کے پانچ افراد شامل ہیں۔
نصراللہ کے بقول سال 2019 میں ان کی تنظیم اور بلوچستان حکومت کے درمیان لاپتا افراد کے مسئلے پر مذاکرات ہوئے تھے۔ جس میں صوبائی حکومت نے ان سے لاپتا افراد کی تصدیقی فہرست کی فراہمی کا کہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب سے صوبائی حکومت کو فہرست فراہم کی گئی ہے۔ وقتاً فوقتاً لاپتا افراد کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے گزشتہ ماہ وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں لاپتا افراد کے مسئلے کے حوالے سے کہا تھا کہ انہوں نے وزارت سنھبالنے کے بعد پہلی ملاقات ہی لاپتا افراد کی تنظیم سے کی تھی۔
وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کے بقول وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز کی جانب سے انہیں 450 افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی۔ جب ہماری دوسری میٹنگ ہوئی تو 300 افراد بازیاب ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کس حد تک اقدامات اٹھا رہی ہے۔
واضح رہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہی ہے اور فروری سال 2019 میں پہلی بار حکومت بلوچستان نے سرکاری سطح پر تنظیم کے ساتھ لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے مذاکرات کئے تھے۔
لاپتا افراد کی بازیابی کو سیاسی جماعتوں نے قابل قدر پیش رفت قرار دیا ہے۔
نصراللہ کے بقول، جب صوبائی حکومت سے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی پہلے اس سلسلے میں وفاقی حکومت اور پاکستان کے خفیہ اداروں سے بات چیت کی جائےگی۔ اس کے بعد سے لاپتا افراد کے اپنے گھروں کو پہنچنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت چھ نکات کے تحت کی تھی۔ جس میں لاپتا افراد کی بازیابی بھی شامل تھی۔
نصراللہ لاپتا افراد کی بازیابی کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور لواحقین کے طویل جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے لاپتا افراد کی بحالی کے لیے جدوجہد کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے حکومت سے اپیل کر رکھی ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے معاملے کے طور پر دیکھا جائے، کیونکہ لاپتا ہونے والے افراد کے والدین زندگی بھر ایک اذیت اور کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہر ماہ ایک بار لاپتا افراد کے مسئلے پر میٹنگ کی جاتی ہے اس دوران ہمیں یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ فراہم کردہ فہرستوں کے مطابق صوبائی اور مرکزی سطح پر کام ہو رہا ہے۔ ہم اس اقدامات سے مطمئن ہیں کہ نہ صرف لاپتا افراد بازیاب ہوں گے بلکہ جبری گمشدیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اپنی نوعیت کا طویل کیمپ بھی لگایا جاتا ہے۔
ادھر رواں ماہ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت کی طرف سے قائم کمیشن کا اجلاس بھی منعقد ہو گا۔ جس میں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت بھی ہو گی۔