ننکانہ میں توہینِ مذہب کے ملزم کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت، وزیرِ اعظم کا نوٹس

پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کے ملزم کو تھانے سے نکال کر مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے واقعے کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کر لی ہے جب کہ آئی جی پنجاب نے دو سینئر پولیس افسران کو معطل کر دیا ہے۔

ننکانہ صاحب کے تھانہ واربرٹن میں ہفتے کو پیش آنے والے اس واقعے میں مشتعل ہجوم نے ایس ایچ او سمیت دیگر پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں تھانےپر دھاوا بول دیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم زبردستی تھانے کا مرکزی گیٹ کھول کر اندر داخل ہو جاتا ہے۔ اس دوران ایس ایچ او اور دیگر ملازمین اپنی جان بچا کر تھانے سے بھاگ جاتے ہیں۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی ننکانہ سرکل، نواز ورک، ایس ایچ او واربرٹن، فیروز بھٹی کو معطل کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔


وزیرِ اعظم شہباز شریف کا نوٹس

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا اور سوال اُٹھایا کہ پولیس نے پرتشدد ہجوم کو کیوں نہیں روکا۔

وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور کسی کو بھی قانون پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

ملزم پر کیا الزام تھا؟

پولیس کے مطابق یہ واقعہ ہفتہ کےر وز پیش آیا جب مقامی لوگوں کو قرآن کے بعض اوراق ملے جن پر ایک خاتون اور کچھ لوگوں کی تصاویر موجود تھیں۔ مبینہ طور پر ان اوراق کو قرآن سے الگ کر کے رکھا گیا تھا اور ان کے ساتھ ایک چھری بھی موجود تھی۔

ننکانہ صاحب پولیس کے ترجمان وقاص احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں وارث نامی ملزم کو توہین قرآن کی اطلاع ملنے پر پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور اس کے بعد تھانے منتقل کردیا تھا۔ملزم واربرٹن میں سندھرانا ٹاؤن کا رہائشی ہے۔

وقاص احمد کا کہنا تھا کہ جب پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تو اس دوران علاقہ مکینوں کی ایک بڑی تعداد تھانے کے اندر داخل ہوگئی اور توڑ پھوڑ شروع کردی اور ملزم کو پولیس سے چھین کر مارپیٹ کرنے لگے۔ اس دوران اسے جلانے کی کوشش کی لیکن ملزم اس سے پہلے ہی ہلاک ہو چکا تھا۔

وقاص احمد کے بقول ملزم پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی اور رشتے داروں کی تصاویر قرآن کے اُوپر رکھ کر کچھ لکھ رہا تھا۔

وقاص کے بقول بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ملزم مقدس اوراق پرتصاویر اور چھری رکھ کرجادو ٹونا کرتا تھا۔

چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر اشرفی نے ایک بیان میں کہا ہےکہ ننکانہ صاحب میں توہین مذہب کے ملزم کا قتل اور جلانا ناظالمانہ فعل ہے جن مجرموں نے یہ کام کیا حکومت پنجاب انہیں گرفتار کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن قوم کی تربیت پر کوئی کام نہیں کیا گیا، اس واقعے میں بھی اسکول کے بچے نظر آرہے ہیں جن کے کندھوں پر سکول کے بیگ تھے، یہ لوگ وہاں توڑ پھوڑ کررہے تھے۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ اگر اس واقعہ میں کوئی مقامی مذہبی تنظیم یا گروہ شامل ہے جس نے اشتعال دلایا ہے تو پولیس کو فوری کارروائی کرنی چاہیے، ایسے افراد کا سپیڈی ٹرائل ہونا چاہیے اور چند دن کے اندر انہیں مثالی سزائیں ملنی چاہیے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی شدید ردِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور مختلف صارفین کی طرف سے اس فعل کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔

سینئر صحافی کامران خان نےکہا کہ توہینِ مذہب کے نام پر ایک اور بہیمانہ قتل، ایک شخص کو پولیس سے چھین کر تشدد کرکے قتل کیا گیا اور لاش کو جلا دیا گیا۔


پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی لال چند ملہی نے کہا کہ توہینِ مذہب کے ملزم کو کسی اور جگہ نہیں بلکہ تھانے کے اندر قتل کرکے جلا دیا گیا۔