ایک امریکی کمپنی ماڈرنا نے کرونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کی ہے، جس کی آزمائش چوہوں پر کی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس کے کامیاب نتائج کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اس ویکسین سے انسانی جسم میں اتنی قوت مدافعت پیدا ہو جائے گی کہ اس کے بعد کرونا وائرس کا انسانی جسم کے اندر زور کمزور پڑ جائے گا۔
ابتدائی نتائج کے مطابق، اس ویکسین کے ایک ڈوز سے کرونا وائرس کے خلاف بنیادی مدافعت پیدا ہو سکے گی۔ جمعہ کو اس کمپنی اور یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیس ڈیزیز (NIAID) نے یہ ڈیٹا جاری کیا ہے۔ اس میں کچھ چیزوں کی ضمانت دی گئی ہے۔ تاہم، اس نےتمام سوالات کے جواب نہیں دیے۔
میو کلینک میں متعدی امراض اور ویکسین کے محقق ڈاکٹر گریگوری پولینڈ کا کہنا ہے کہ ڈیٹا سے صرف ابتدائی معلومات حاصل ہوئی ہیں اور ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ جن پر تجربات کیے گیے، ان چوہوں کی تعداد بھی کم ہے۔
اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ ایک معتبر سائنسی رسالے میں پیش کیا ہے۔
ماڈرنا کی ویکسین اپنے درمیانی مراحل میں ہے۔ جمعرات کو اس کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ جولائی میں صحت مند رضاکاروں پر آزمائش شرروع کرے گی۔ اس مقصد کے لیے یہ تیس ہزار افراد کو بھرتی کر رہی ہے۔
چوہوں کو اس تجرباتی ویکسین کے ایک یا دو ڈوز دیے گئے اور اس کے بعد وائرس کو ان کے جسم میں داخل کیا گیا۔
بعد میں ان چوہوں کا تجزیہ کیا گیا اور دیکھا گیا کہ انہیں ذیلی تحفظ حاصل رہا۔ اور ویکسین سے متعلقہ تنفس کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ مزید تجربات سے یہ معلوم ہوا کہ ویکسین ایسی اینٹی باڈیز پیدا کرتی ہے جن سے وائرس کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور جسم کے دوسرے خلیوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔
اس ویکسین نے پھیپھڑوں میں انفکشن کو روکا اور اس سے کوئی زہریلے اثرات بھی رونما نہیں ہوئے۔ اس ویکسین پر کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے نوٹ کیا کہ چوہے کو وائرس لگنے سے پہلے صرف ایک ڈوز دیا گیا اور اس کے بعد چوہے کے پھیپھڑوں کو مکمل تحفظ حاصل رہا۔ اور وائرس کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہوا ۔
بے لور کالج آف میڈیسن کے محقق ڈاکٹر پیٹر ہوٹز کہتے ہیں کہ پہلی نظر میں اس سے کافی امید پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی انہوں نے مفصل طور سے اس تحقیقی مقالے کا جائزہ نہیں لیا۔
میو کلینک میں متعدی امراض اور ویکسین کے محقق ڈاکٹر گریگوری پولینڈ کا کہنا ہے کہ اس میں اہم عناصر کی نشان دہی کی گئی اور ان کی بنیاد پر سائنس دان اس کو پرکھ سکتے ہیں۔ اس میں جو نتائج دکھائے گئے ہیں وہ قابل توجہ ہیں مگر اس سلسلے میں مزید تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے۔