بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اگلے ہفتے امریکہ کا سرکاری دورہ کریں گے جس کے دوران وہ صدر جو بائیڈن سے وائٹ ہاؤس میں سلامتی ، ٹیکنالوجی اور مختلف عالمی امور پر تعاون بڑھانے کے لئے بات چیت کریں گے۔
بھارتی رہنما کا 22 جون کو باقاعدہ استقبال کیا جائے گا جس میں وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں ان کو 21 توپوں کی سلامی بھی دی جائیگی۔ اسی روز مودی دوسری بار امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ وہ امریکی کانگریس سے دو بار خطاب کرنے والے پہلے بھارتی رہنما ہوں گے۔
دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداراور امریکہ اور بھارت کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین ،عالمی تناظر اور دو طرفہ تعاون کو دفاع، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مینیوفیکچرنگ کے شعبوں میں وسیع کرنے کے حوالے سے 21 جون سے شروع ہونے والے اس دورے کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔
دورے سے قبل امریکہ کےقومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے دو جمہوری ملکوں کے درمیان تعلقات اور دوسرے امور پر بات چیت کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کےلیے دہلی میں اعلیٰ بھارتی حکام سے ملاقاتیں کیں ۔
انہوں نے نئی دہلی کو یقین دلایا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ دفاع اور ہائی ٹیکنالوجی جیسےاہم شعبوں میں تجارت کو آسان تر بنانے کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنےکے لئے تیار ہے۔
واشنگٹن میں فعال تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزسے منسلک ماہر اور یو ایس انڈیا پالیسی اسٹڈیز کے چیئر پرسن رچرڈ روسو کہتے ہیں کہ اس دورے میں امریکہ کی جانب سے بھارت کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا فیصلہ ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن کے اس اقدام کے تحت جنرل الیکٹرک کمپنی کو بھارت میں مقامی طور پر بنا ئے جانے والے لڑاکا طیاروں کے لیے انجن بنانے کی اجازت ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ؑعالمی تناظر میں بھارت کی اہمیت
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ، ماہرین کے مطابق واشنگٹن دنیا بھر میں چین کے اثر و رسوخ کوروکنے کی اپنی کوششوں میں بھارت کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے، اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان یوکرین پر روس کے حملے سےنمٹنے کے طریقوں پراختلافات موجود ہیں ۔
اس سلسلے میں رچرڈ روسو نےایک بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارتی رہنما کے دورے کے دوران امریکہ، ایشیا میں اپنی بڑھتی ہوئی شراکت داری کو ظاہر کرنا چاہے گا اور امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان کواڈ تعلقات پر زور دے گا ۔
ان کے مطابق ملاقاتوں میں چین کے بحیر ہ جنوبی چین اور ایشیا کے دیگر علاقوں میں بیجنگ کے سیاسی اور فوجی عزائم کا مقابلہ کرنے پر بھی بات چیت ہو گی۔
یو ایس انڈیا پالیسی اسٹڈیز کے چیئر پرسن کے مطابق امریکہ بھارت پر زور دے گا کہ یوکرین پر روسی حملے اور قبضے پر زیادہ تنقید کی جائے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا دہلی کے لئےایک مشکل کام ہوگا۔
بھارت کیا چاہتا ہے ؟
ماہرین کے مطابق ، بھارت امریکہ سے تجارت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
نئی دہلی امریکہ سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول چاہتا ہے جسے امریکہ عام طور پر کسی بھی دوسرے ملک سے شیئر کرنے سے گریزاں ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری طرف بھارت اس وقت عالمی معاملات میں اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
روسو کہتے ہیں کہ بھارت عالمی سفارت کاری کی اعلیٰ میز پر بیٹھنا چاہتا ہے اور اس کی توقع رکھتا ہے۔ مودی چاہیں گے کہ امریکہ ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت حاصل کرنےکے لئے نئی دہلی کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کرے۔
احتجاجی مظاہرے
دریں اثنا، خبررساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ امریکہ میں انسانی حقوق کے گروپ، نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کے بگڑتے ہوئے مسئلے پر احتجاجی مظاہرے کریں گے۔ ہر چندکہ رپورٹ کہتی ہے کہ ماہرین یہ نہیں سمجھتے کہ واشنگٹن، انسانی حقوق کے معاملے پر نئی دہلی پر عوامی سطح پر تنقید کرے گا۔
انڈین امیریکن مسلم کونسل، پیس ایکشن، ویٹرنز فار پیس اور بتھیسڈا افریقن سیمیٹری کولیشن نے22 جون کو مودی اور بائیڈن کی ملاقات کے موقع پر وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہونے کا منصوبہ بنایاہے ۔
واشنگٹن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ قریبی تعلقات میں مزید بہتری کی توقع رکھتا ہے اور بھارت کو چین کے خلاف ایک کاؤنٹر ویٹ یعنی مد مقابل کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ جغرافیائی سیاست انسانی حقوق کے مقابلے میں برتری حاصل کرے گی۔
SEE ALSO: امریکہ بھارت کے ساتھ دفاع اور ہائی ٹیک تجارت میں رکاوٹیں دور کر نے کو تیاررائٹرز کے مطابق امریکہ نے کہا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق سے متعلق اس کے خدشات میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں، منحرف افراد اور صحافیوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔
احتجاج کرنے والے گروپوں نے فلائر تیار کیے جن پر لکھا تھا ’’مودی ناٹ ویلکم‘‘ اور ’’ہندو بالادستی سے ہندوستان کو بچاؤ‘‘۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور جنوبی ایشیا کے ماہر ڈونلڈ کیمپ نے رائٹرز کے مطابق کہا، "میرا اندازہ ہے کہ انسانی حقوق بات چیت میں زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔"
کیمپ کے مطابق مودی کے دورے کو دونوں طرف سے کامیاب قرار دینے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے انسانی حقوق کے مسائل کو اٹھانے میں ہچکچاہٹ ہوگی۔
انسانی حقوق کے معاملے پر امریکی اور بھارتی موقف
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ہندوستانی حکام کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظات کو باقاعدگی سے اٹھاتا ہے اور مودی کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے امریکی باشندوں کے آزادئ اظہار کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔
دوسری طرف وزارت خارجہ کے ترجمان نے فوری طور پر رائٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
مودی کے سال 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، بھارت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 140 ویں نمبر کی رینکنگ سے اس سال 161 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو کہ اب تک کا سب سے کم درجہ ہے۔
علاوہ ازیں، بھارت مسلسل پانچ سالوں سے عالمی سطح پر سب سے زیادہ انٹرنیٹ بند ہونے ممالک میں سرفہرست ہے۔
SEE ALSO: مودی کے دورہ امریکہ سے قبل واشنگٹن میں بی بی سی کی ڈاکیومینٹری کی اسکریننگانسانی حقوق کے گروپس نے مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حقوق کے علمبردار سن 2019 کے شہریت کے اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مسلم تارکین وطن کو شامل نہ کرنے کے باعث "بنیادی طور پر امتیازی" قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ حقوق کے رہنما تبدیلی مذہب مخالف قانون سازی جو ان کے مطابق عقیدے کی آزادی کے آئینی طور پر محفوظ حق کو چیلنج کرتا ہے اور سال 2019 میں مسلم اکثریت والے علاقے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔
بھارت کی حکومت نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد تمام کمیونیٹیز کی فلاح و بہبود ہے اور وہ قانون کو یکساں طور پر نافذ کرتی ہے۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مودی کے دورہ امریکہ سے پہلے ہی ،بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی نو منتخب کانگریس حکومت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابقہ حکومت میں منظور کردہ تبدیلی مذہب مخالف قانون کو منسوح کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقلیتی گروپوں کی جانب سے خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ جب کہ بی جے پی اس فیصلے پر سخت تنقید کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ مودی بھارت کے مقبول رہنما ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ وہ اگلے سال کے انتخابات کے بعد بھی اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔
( اس خبر میں کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)