بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ حکومت کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔
اگرچہ کسی سرکاری عہدیدار نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ بھارتی حکومت شاید یہ اقدام اُٹھانے جا رہی ہے۔
اس کا ایک واضح عندیہ بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نیشنل 'این آئی اے' کے ایک ایسے تازہ بیان میں دیا گیا ہے جس میں حریت کانفرنس پر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا براہِ راست الزام عائد کیا گیا ہے۔
این آئی اے نے پیر کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے ہندوارہ علاقے میں معروف تاجر ظہور احمد شاہ وٹالی کی 17غیر منقولہ جائیدادوں کو ضبط کیا تھا۔
منگل کو حریت کانفرنس کے ایک لیڈر محمد اکبر کھانڈےعرف اکبر ایاز کی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے ملورہ میں واقع املاک کو ضبط کیا گیا۔
این آئی اے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ظہور وٹالی پر یہ جرم ثابت ہوا ہے کہ وہ مختلف غیر قانونی چینلز کے ذریعے بھاری رقوم اکٹھی کرکے انہیں حریت کانفرنس کے لیڈروں کو پہنچاتے تھے۔
حریت کانفرنس پر تشدد بھڑکانے کا الزام
این آئی اے کے بیان کے مطابق "تحقیقات کے دوران پتا چلا تھا کہ ظہور وٹالی ہنڈی کے ذریعے پاکستان میں مقیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید سے رقوم حاصل کر کے حریت کانفرنس تک پہنچاتے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کے تحت 2017 میں نئی دہلی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کو مئی 2022میں ایک خصوصی عدالت نے مجرم قرار دے کر عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔
بیان کے مطابق یاسین ملک پر لگائے گئے یہ الزامات درست ثابت ہوئے تھے کہ وہ جموں وکشمیر میں دہشت گرد انہ اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے تھے جن کا مقصد ریاست کو بھارت سے الگ کرنا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے "یہ کالعدم تنظیمیں 1993میں قائم کی گئی کل جماعتی حریت کانفرنس کو علیحدگی کے لیے سرگرمیوں کو فروغ دینے اور انہیں انجام دینے کے لیے ایک محاذ کے طور پر استعمال کررہی تھیں۔"
مقدمے کی تحقیقات کے دوران پتا چلا ہے کہ علیحدگی پسند جنہیں اس کیس میں ملزموں کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور جن میں حریت کانفرنس بھی شامل ہےایک مجرمانہ سازش میں شامل ہوئے تھے۔
واضح رہے این آئی اے نے رواں برس جنوری میں سرینگر کے راجباغ علاقے میں واقع حریت کانفرنس کے صدر دفاتر کو سیل کردیا تھا۔ این آئی اے نے یہ اقدام نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت کے حکم نامے کے تحت اٹھایا تھا۔
خصوصی این آئی اے عدالت کے جج شیلندر ملک نے حریت کانفرنس کے دفتر کو ضبط کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا تھا کہ علیحدگی پسند لیڈر اور کشمیر فرنٹ نامی تنظیم کے سربراہ محمد نعیم خان اس جائیداد کے شریک مالک ہیں جنہوں نے مقامی سطح پر اور بیرونی ممالک سے غیر قانونی حوالہ چینلز کے ذریعے بھاری رقوم اکٹھا کیں۔
نعیم خان اُن ایک درجن سے زائد کشمیری علیحدگی پسند لیڈروں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں این آئی اے نے 2017 کے وسط میں ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
یہ سبھی ملزمان گزشتہ چھ سال سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں ۔ ملزموں کے خلاف جو فردِ جرم عائد کی گئی تھی اُس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نےدنیا بھر میں ایک ایسا جامع ڈھانچہ اور میکانزم قائم کر رکھا تھا جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ اور دوسری غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے تحریکِ آزادی کے نام پر بھاری رقوم اکھٹی کی جا رہی تھیں۔
حریت کانفرنس پر ممکنہ پابندی کے مضمرات
تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کا کہنا ہے "یہ تمام بیانات، الزامات اور عدالتی فیصلے اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرنے کے لیے زمین ہموار کر دی گئی ہے۔ اب صرف باقاعدہ اعلان آنا باقی ہے جو وزارتِ داخلہ یو اے پی اےکے تحت کسی بھی وقت جاری کرسکتی ہے۔
اس استفسار پر کہ اس طرح کے اقدام کا جموں وکشمیر کی سیاست بالخصوص علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کیا اثر پڑے گا ؟
ڈاکٹر ارون کمار نے کہا " مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس طرح کے کسی فیصلے کا جموں وکشمیر کی زمینی صورتِ حال پر کوئی بڑا اثر پڑے گا۔
اُن کے بقول حریت کانفرنس عملاً پہلے ہی غیر فعال بنا دی گئی ہے۔ اس کے دونوں دھڑوں کے تقریباً سبھی لیڈر جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہیں۔ اسے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ"ہاں البتہ حریت کانفرنس پر باقاعدہ پابندی لگانے کے اقدام کو بیرونِ ملک بھارت کے خلاف ایک سیاسی ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جائے گا بالخصوص پاکستان اسے کشمیرکے معاملے میں سفارتی سطح پر بھارت پر برتری حاصل کرنے کے لیے ایک ایشو بنا سکتا ہے۔"
حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993میں قائم کیا گیا تھا۔ لیکن دس سال بعد لیڈر شپ میں بعض امور پر اختلافات کی بناء پر یہ اتحاد دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
کشمیر کے مسئلے پر سخت گیر مؤقف کے حامل اتحاد کے دھڑے کی قیادت سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے سنبھال لی تھی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں مذہبی اور سیاسی لیڈر میرواعظ محمد عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہو گئی تھیں۔
ستمبر 2021 میں 91 سالہ سید گیلانی کا طویل علالت کے بعدا نتقال ہوا تو حریت کانفرنس کے اس دھڑے کی قیادت اس میں شامل ایک بڑی اکائی جموں و کشمیر مسلم لیگ کے سربراہ مسرت عالم بٹ کو سونپی گئی جو گزشتہ کئی برس سے جیل میں بند ہیں جب کہ میرواعظ عمر فاروق بھی 5 اگست 2019 سے سرینگر کے نگین علاقے میں واقع اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔
'پابندی ایک غیر جمہوری عمل اور انصاف کو خون ہو گا'
حریت کانفرنس کے میر واعظ دھڑے کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارتی حکومت نے اگر حریت کانفرنس پر پابندی لگائی تو یہ جمہوری اقدار کے منافی ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ کشمیری عوام پُر امن ذرائع سے تنازع کشمیر کے حل کرنے کے خواہش مند ہیں اور یہ جذبہ عوام میں پیوست ہے۔"