بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی نو منتخب کانگریس حکومت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابقہ حکومت میں منظور کردہ تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون کو منسوح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقلیتی گروپوں کی جانب سے خیرمقدم کیا جا رہا ہے جب کہ بی جے پی اس فیصلے پر سخت تنقید کر رہی ہے۔
ریاست کے قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر ایچ کے پاٹل نے جمعرات کو بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پانچ جولائی سے شروع ہونے والے ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں اس قانون کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قانون گزشتہ سال ستمبر میں منظور کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسلم تنظیموں نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ بی جے پی حکومت نے مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کی جو سیاست شروع کی تھی توقع ہے کہ اس قدم سے اس پر قدغن لگانے میں مدد ملے گی۔
’آل انڈیا کرسچین کونسل‘ (اے آئی سی سی) کے جنرل سیکریٹری اور انسانی حقوق کے سینئر کارکن جان دیال نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ سدھارمیا کی حکومت کا یہ قدم انتہائی جرأت مندانہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف تو تھا ہی قبائلیوں کے بھی خلاف تھا کیوں کہ اگر کوئی قبائلی اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس قانون کے مطابق اسے زیادہ سخت سزا کا سامنا ہے۔
قانون ہے کیا؟
مذکورہ قانون جبریہ، دھوکہ، لالچ یا شادی کے ذریعے تبدیلیٔ مذہب کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اس کے مطابق قصوروار شخص کو 25 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ تین سے پانچ سال تک کی جیل ہو سکتی ہے۔
نابالغ، خاتون یا قبائلی شخص کے غیر قانونی طریقے سے اپنا مذہب بدلنے پر 10 سال کی جیل ہو گی۔ یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر اپنا مذہب بدلنے کے خواہش مند شخص کے لیے ایک طے شدہ فارم پر ضلع مجسٹریٹ کے سامنے 30 دن قبل اس کی اطلاع دینا لازمی ہو گی۔
جان دیال کے بقول آج کے ماحول میں جب کہ بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں پر اقلیتوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنانے کا الزام لگایا جا رہا ہے، کرناٹک حکومت کا یہ قدم لائق ستائش ہے اور مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کی سیاست کرنے والوں کو ایک سخت پیغام ہے۔
یاد رہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کی جانب سے مسیحی تنظیموں پر ہندوؤں کا مذہب بدلوانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسیحی تنظیمیں لالچ دے کر جنوب مشرقی ریاستوں کی قبائلی آبادی کا مذہب تبدیل کراتی ہیں۔
کرناٹک اور کیرالہ کی مسلم تنظیموں اور بالخصوص کالعدم قرار دی گئی مسلمانوں کی تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) پر بھی ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔مسلم اور مسیحی تنظیمیں اس کو ایک بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیتی ہیں۔
یاد رہے کہ جس وقت یہ قانون بنایا گیا تھا اسی وقت مسیحی اور مسلم تنظیموں نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا سہارا لے کر اقلیتوں کو پریشان کیا جائے گا۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے اسے واپس لینے کی اپیل کی تھی۔
جماعت اسلامی ہند نے مسیحی تنظیموں کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے کہ جن ریاستوں میں ایسا قانون بنایا گیا ہے وہاں سے اسے فوری طور پر ختم کیا جائے کیوں کہ یہ شہریوں کی مذہبی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے منافی ہے۔
تبدیلیٔ مذہب قانون کے مخالفین کیا کہتے ہیں؟
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ اس قانون کا نام ’ریلیجس فریڈم ایکٹ‘ رکھا گیا ہے جب کہ یہ قانون شہریوں کی مذہبی آزادی کو پامال کرتا ہے۔
جماعت اسلامی بھی اس قانون کی مخالفت کرنے والوں میں شامل رہی ہے۔
محمد سلیم کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص زبردستی کسی کا مذہب بدلواتا ہے یا کسی کی مذہبی آزادی کو پامال کرتا ہے تو اس کے لیے دوسرے قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ کسی نئے قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بعض تجزیہ کاروں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کرناٹک کی کانگریس حکومت کے اس فیصلے کی آڑمیں بی جے پی ایک بار پھر مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
اس پر جماعت اسلامی کے نائب امیر کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس فیصلے کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کرے گی لیکن تمام سیکولر قوتوں کو چاہیے کہ وہ اس کی اس کوشش کو ناکام بنائیں اور دوسری ریاستوں سے بھی کہیں کہ وہ اپنے یہاں مذہبی ہم آہنگی کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
قانونی ماہرین پہلے بھی تبدیلی مذہب مخالف قانون کو آئینی ضابطوں کے خلاف بتاتے رہے ہیں۔ تقریباً دو درجن مسلم تنظیموں کے وفاق ’آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت‘ کے صدر اور سپریم کورٹ کے وکیل فیروز احمد ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئین میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ لیکن یہ قانون مذہبی آزادی پر قدغن لگاتا ہے لہٰذا اس کا ختم کیا جانا ہی بہتر ہے۔
بنگلور کے آرک بشپ پیٹر مچاڈو نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ قانون نہ صرف شہریوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے بلکہ آئین کے بھی خلاف ہے۔
بی جے پی کا ردِعمل
بی جے پی نے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما بسناگوڈا آر پاٹل نے ایک ٹویٹ میں سوال کیا کہ کیا راہل گاندھی کی محبت کی دکان یہی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ کانگریس حکومت کا ہندو مخالف ایجنڈا بے نقاب ہو گیا۔ کیا وزیر اعلیٰ سدھا رمیا ہندوؤں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے بقول حکومت پر تبدیلی مذہب کرانے والے مافیاؤں کا اثر ہے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے ریاست کی کانگریس حکومت کو ’نئی مسلم لیگ‘ قرار دیا۔
یاد رہے کہ کانگریس نے اس قانون کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ اس نے اسے اقلیت مخالف قانون قرار دیا تھا۔ اس نے قانون کی منظوری کے وقت اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست کی کانگریس حکومت سابقہ بی جے پی حکومت کے متعدد فیصلوں کو بدلنے جا رہی ہے جس کی مخالفت بی جے پی کرے گی اور حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرے گی۔
یاد رہے کہ بی جے پی اقتدار والی نو ریاستوں اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، جھارکھنڈ، کرناٹک اور ہماچل پردیش نے تبدیلی مذہب مخالف قانون منظور کیا ہے۔ کرناٹک اور جھارکھنڈ سے بی جے پی حکومت ختم ہو چکی ہے۔