پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف ںے گلہ کیا ہے کہ صدر بائیڈن کے نزدیک خطے میں پاکستان کی اہمیت کے باوجود تاحال اُنہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات نہیں کی۔
معید یوسف کے اس بیان پر ایک بار پھر پاکستان کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت کے باوجود بائیڈن کیا کسی مصلحت کے تحت عمران خان سے بات نہیں کر رہے یا اُن کی دیگر مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
معید یوسف نے برطانوی اخبار 'فنانشنل ٹائمز' کو دیے گئے انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کے صدر نے ایک ایسے اہم ملک کے وزیرِ اعظم سے ابھی تک بات کیوں نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اس کا کردار نہایت اہم ہے۔
'فنانشل ٹائمز' کے مطابق امریکہ کی طرف سے یہ سرد مہری ایک ایسے وقت نظر آئی ہے جب امریکہ کے افغانستان سے فوجی انخلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے افغانستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر خطے میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے لیے طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے جب کہ واشنگٹن نے طالبان کی اعلیٰ قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انخلا کے لیے ایک معاہدہ کرنے کے لیے پاکستان کا سہارا لیا تھا۔
لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم خان کی طرف سے امریکہ پاکستان تعلقات کو افغانستان سے ہٹ کر وسعت دینے کے بیانات کے باوجود بائیڈن نے امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ابھی تک عمران خان کو فون نہیں کیا۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ فون کالز اور سیکیورٹی تعلقات رعایتیں ہیں تو اُن کے بقول پاکستان کے پاس بھی آپشنز ہیں۔ البتہ معید یوسف نے ان آپشنز کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ آپشنز پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات میں مزید وسعت یا خطے کے دیگر معاملات پر امریکی مؤقف سے مختلف بیانیہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب 'فنانشنل ٹائمز' نے بائیڈن انتطامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کئی عالمی رہنما ایسے ہیں جن سے صدر بائیڈن بات نہیں کر سکے ہیں اور وہ مناسب وقت پر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سے بات کریں گے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے 2004 میں پاکستان کو اپنا نان نیٹو اتحادی قرار دیا تھا کیوں کہ افغانستان میں اسے طالبان کے خلاف مدد کی ضرورت تھی۔ لیکن امریکہ تواتر سے پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام بھی عائد کرتا رہا ہے لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے دوران ایک جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے نہ صرف پاکستان کی سیکیورٹی امدد معطل کرتے ہوئے پاکستان پر جھوٹ اور دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا تھا۔ وہیں دوسری جانب پاکستان کے تعاون سے ہی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے بعد ٹرمپ نے وزیرِ اعطم عمران خان کو وائٹ ہاؤس بھی مدعو کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعتماد کا فقدان ٹیلی فون نہ کرنے کی وجہ؟
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کا بیان افغانستان میں پاکستان کے مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے باوجود امریکہ پاکستان کو نظر انداز کر رہا ہے۔
یادر ہے کہ پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان نے اہم کردار کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اب واشنگٹن یہ توقع رکھتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں تشدد کو کم کرانے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔
لیکن ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امن عمل کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کرتا ہے یا اسلام آباد افغانستان کے امن کا ضامن ہے تو یہ درست نہیں ہے۔
ہما بقائی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن پاکستان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور اپنے کارڈز ابھی ظاہر نہیں کر رہے۔
SEE ALSO: طالبان کے ترجمان نہیں اور نہ ہی اُن کی کارروائیوں کے ذمے دار ہیں: عمران خانلیکن ہما بقائی کے خیال میں صدر بائیڈن کا پاکستان کی قیادت سے بات نہ کرنے کی وجہ اعتماد کا فقدان ہی ہو سکتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کی خواہش ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو افغانستان کے تناظر سے ہٹ کر دیکھا جائے۔
ہما بقائی کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی جہت پر استوار کرنا چاہتا ہے لیکن اب پاکستان کی توجہ دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھتے ہوئے اقتصادی رابطوں کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے لیکن یہ تعلقات ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونے چاہئیں۔
ان کے بقول، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات اور عالمی مالیاتی اداروں میں واشنگٹن کے اثروسوخ کی وجہ سے پاکستان امریکہ کے ساتھ مثبت انداز میں تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔