پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی بھی تنازع میں اب امریکہ کا شراکت دار نہیں بنے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قربانیوں کے باوجود امریکہ نے افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرایا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب افغانستان میں کسی 'اسٹرٹیجک ڈیپتھ' کا بھی خواہاں نہیں۔ پاکستان بارہا دنیا پر یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ بحیثیت پاکستانی یہ وہ وقت تھا جب اُنہیں سب سے زیادہ ذلت محسوس ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا شروع سے مؤقف تھا کہ اس جنگ سے پاکستان کا کیا تعلق ہے۔ القاعدہ افغانستان میں ہے۔ اسی طرح طالبان بھی افغانستان میں تھے پاکستان میں تو نہیں تھے۔ پاکستان کو کیا ضرورت تھی کہ وہ امریکہ کی جنگ میں شریک ہوتا؟ اس وقت سے قوم کو سیکھنا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں شامل ہو کر حماقت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہونے والے اجلاسوں میں انہوں نے بھی شرکت کی تھی۔ ان اجلاسوں میں بقول ان کے یہ کہا گیا کہ اگر پاکستان امریکہ کی جنگ کا حصہ نہیں بنتا تو پاکستان کو نقصان ہو سکتا تھا۔ اس لیے پاکستان کو اس وقت امریکہ کی مدد کرنی چاہیے تھی۔
ملک بھر میں ہونے والی کارروائیوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے کسی اور کی جنگ میں شریک ہو کر 70 ہزار افراد کی جانوں کی قربانی دی۔
عمران خان نے مزید کہا کہ امریکہ ڈرون حملے پاکستان کی حکومتوں کی اجازت سے کرتا رہا جسے ہماری حکومتیں چھپاتی رہیں۔ ہم نے ایک سبق سیکھا ہے کہ کبھی کسی کے لیے کسی خوف سے اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرنا، میں نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔
جنگ سے ہونے والے مالی نقصان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی تو کسی سرمایہ کار نے کیسے آنا تھا۔ پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک خطہ قرار دیا جانے لگا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے لوگوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جن کو گوانتاناموبے پہنچایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کا اعتراف اپنی کتاب میں بھی کیا۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں افغانستان سے القاعدہ کے کچھ افراد آ گئے تھے۔ سرحد کھلی ہوئی تھی اس لیے وہ قبائلی علاقوں میں آئے تھے۔ پاکستان کو کہا گیا کہ چند سو لوگوں کے پیچھے فوج بھیجی جائے۔ اور پاکستان نے چند سو عسکریت پسندوں کے پیچھے فوج بھی بھیجی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین وقت تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان کا اتحادی تھا اور وہ پاکستان میں ہی ڈرون حملے کرتا تھا۔ ان کے الفاظ میں ان حملوں میں پاکستانی مرتے تھے جب کہ اس کا بدلہ پاکستان کی فوج سے لیا جاتا تھا۔
ایبٹ آباد میں مئی 2011 میں ہونے والے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے پاکستان پر اعتماد نہیں کیا کہ وہ پاکستان کو آگاہ کرتا کہ پاکستان یہ کارروائی کرے۔
امریکہ اور پاکستان کے جنگ کے دوران تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اتنا نقصان اٹھایا لیکن امریکہ نے اس کی تعریف نہیں کی اور نہ ہی اس کو تسلیم کیا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس نے دوسرے ملک کے لیے اتنی قربانیاں دی ہوں۔ انہوں نے الٹا پاکستان پر الزامات لگائے کہ یہ افغانستان میں دوغلا کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہا تھا تو یہ پاکستان کے اوپر ڈال دیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے اس پر تنقید کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کبھی اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
حالیہ واقعات کے حوالے سے وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کا اب افغانستان میں ایک ہی مقصد ہے۔ وہ بہت تاخیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ وہ اگر اس حل پر پہلے آ جاتے تو اس قدر خون نہ بہتا۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں کبھی بیرونی مداخلت کامیاب نہیں ہوئی۔ چاہے وہ انگریز دور میں ہوئی تھی یا جب روس نے مداخلت کی تھی۔
افغانستان سے راوں برس ہونے والے فوجی انخلا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جب افغانستان سے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا تھا پاکستان سے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پاکستان کے پاس ایسا کیا تھا جس کی بنیاد پر طالبان کو مذاکرات پر راضی کرتے۔ ان کے بس خاندان پاکستان میں بستے تھے تو کیا پاکستان ان کے خاندانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیتا؟ پاکستان ان کو صرف کہہ سکتا تھا کہ طالبان جنگ طویل کریں گے تو خانہ جنگی ہی ہو گی۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے تاکہ معاشی ترقی ہو۔ اسلام آباد افغانستان میں کوئی اسٹرٹیجک ڈیپتھ نہیں چاہتا۔ وہاں اسلام آباد کا کوئی پسندیدہ گروپ نہیں ہے۔ جو افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں پاکستان ان کے ساتھ ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ امن میں شراکت دار تو ہو سکتا ہے اور یہ شراکت داری ہمیشہ رہے گی۔ لیکن اب تنازع میں مزید شراکت دار نہیں ہو سکتا۔
اپوزیشن کو بات چیت کی دعوت
عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اپوزیشن کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں اپوزیشن نے پہلے دن ہی کہا کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے، صاف شفاف الیکشن کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے انتخابات میں شفافیت آئے گی، اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم سننے کو تیار ہیں۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں بلکہ جمہوری مستقبل کا معاملہ ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ الیکشن لڑیں اور کسی کو فکر نہ ہو کہ دھاندلی سے ہرا دیا جائے گا۔ ایسے الیکشن ہونے چاہئیں جن کے نتائج ہارنے والے بھی تسلیم کریں۔
لاک ڈاؤن سے غریب طبقہ پس جاتا ہے
کرونا کےحوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس لیے بچے کیونکہ ہم نے سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا ،لاک ڈاؤن سے غریب طبقہ پس جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کنسٹریکشن اور ایگری کلچر سیکٹر کو پہلے کھولا. سٹیٹ بینک نے انڈسٹری کی پوری مدد کی. ہم نے احساس کیش پروگرام میں ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو امداد دی. ورلڈ بینک نے بھی احساس پروگرام کو سراہا۔
غریبوں کے ہیلتھ انشورنس کی سہولت
صحت کہ سہولیات کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ جب کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو قرض کی وجہ سے سارا گھر غربت میں چلا جاتا ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے تمام عوام کو ہم ہیلتھ انشورنس دیں گے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہیلتھ پریمیئم دینا پڑتا ہے مگر ہم مفت دے رہے ہیں۔
ہیلتھ کارڈ اب کسی بھی اسپتال میں استعمال ہو سکتا ہے۔ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اسپتال بنائے ۔ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ محکمہ اوقاف اور متروکہ املاک کی سستی زمینیں اسپتالوں کے لئے دیں گے۔
آئی ایم ایف کے پاس مجبوراً جانا پڑا
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں کیونکہ اس کی شرائط سخت تھیں۔ لیکن آخر کوئی چارہ نہیں تھا تو ہمیں آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑا۔
انہوں نے وزیرخزانہ شوکت ترین کے بارے میں کہا کہ انہوں نے میرے نظریہ کے مطابق بجٹ بنایا۔ جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تھا۔ معیشت کو بہتر کرنے کیلئے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ اسی وجہ سے عوام کو مشکلات پیش آئیں اور اب بھی ہیں۔
جب ملک مقروض ہو جائے تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں سعودی عرب اور چین نے ہماری مدد کی اور ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
عام لوگوں کے لیے گھروں کی فراہمی
عمران خان نے کہا کہ عام لوگوں کے لیے گھروں کا منصوبہ ہے۔ ہمارے شہروں میں کچی آبادیاں پھیلتی جارہی ہیں۔ ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو احساس کے ذریعے سبسڈی دیں گے۔ پاکستان ایک فلاحی ریاست کی طرف جا رہا ہے۔ پناہ گاہوں کا جال ملک بھر میں پھیلا رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے قبل اسپيکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں انھوں نے اپوزیشن رہنماؤں کو اجلاس میں ہنگامہ نہ کرنے کی ہدایت بھی کی۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بجٹ تقریر تک محدود رہے تو تقریر سنیں گے۔ الزامات لگائے تو جواب دینگے۔ اپوزیشن نے قومی سلامتی پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز بھی دی۔