پاکستان کے لیے افغانستان کے نمائندۂ خصوصی محمد عمر داؤد زئی نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات مہینوں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں شروع ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نمائندۂ خصوصی محمد عمر داؤد زئی کا کہنا تھا کہ جب فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں گے تو صورتِ حال کا اندازہ ہو گا کہ معاملات حل کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہے۔
محمد عمر داؤد زئی نے بتایا کہ قیدیوں کی رہائی طالبان کا سب سے اہم مطالبہ تھا جو کہ اس مطالبے پر عمل در آمد آخری مراحل میں ہے۔
ان کے مطابق کچھ طالبان قیدیوں کی رہائی ابھی نہیں ہوئی۔ ان کی رہائی پر بھی بات چیت جاری ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان 90 فی صد معاملات حل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں دونوں فریقین کو پہلے آسان اہداف پر بات چیت کرنی ہو گی تاکہ امن مذاکرات مثبت جانب بڑھ سکیں۔
ياد رہے کہ امريکہ اور افغان طالبان کے درميان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں سال فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغانستان کی حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قيدی رہا کرنے ہيں۔ جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 1000 قيديوں کو رہا کرنا تھا۔ اب تک افغان حکومت نے طالبان کے 4000 سے زائد جب کہ طالبان نے اپنی حراست میں موجود افغان حکومت کے 700 سے قيدی رہا کیے ہيں۔
افغان حکومت نے رواں ماہ طالبان کے 600 قیدی رہا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ یہ قیدی سنگین جرائم، جیسے قتل اور اسمگلنگ جیسی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمر داؤد زئی کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے بعد امن مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
افغان طالبان اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔ طالبان کے مطابق افغانستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بین الافغان مذاکرات میں طے کیا جائے گا۔
عمر داؤد زئی بھی افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات کو ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تب ہی ممکن ہو گا جب فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تمام امور پر بات چیت کا آغاز ہو جائے گا۔
افغان نمائندۂ خصوصی کے مطابق مذاکرات کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے لچک کا مظاہرہ بے حد ضروری ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام مسائل حل طلب ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات میں تمام فریقین معنی خیز نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
محمد عمر داؤد زئی کی تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کچھ عرصہ قبل پاکستان نے سینئر سفارت کار محمد صادق کو افغانستان کے لیے اپنا پہلا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا تھا۔
محمد عمر داؤد زئی اس سے قبل پاکستان اور ایران میں سفارت کاری کے علاوہ افغانستان کے وزیرِ داخلہ اور سابق صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔
افغان سفارت کار کے مطابق ان کے تقرر کا ہدف پاکستان اور افغانستان میں دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے جب کہ اس ضمن میں ان کے لیے کافی چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک میں مذہبی، تاریخی اور ثقافتی روایات مشترکہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمسائے ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی فضا قائم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محمد عمر داؤد زئی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو دہشت گردوں کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ ہمسایہ ممالک دوستی کے فروغ کے لیے کام کریں کیوں کہ یہی ان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوست، غلام خان، انگور اڈہ، طور خم اور چمن کی راہ داریاں تجارت کے لیے کھول دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بھارت سے تجارت کے لیے واہگہ بارڈر کو بھی کھول دیا گیا ہے۔
افغان سفیر کے مطابق تجارت کے فروغ سے دونوں ممالک میں اعتماد سازی فروغ پائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کے تجارتی سامان کی بھی اسی راستے سے افغانستان کی منڈیوں تک رسائی پر کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کے نمائندۂ خصوصی نے پاک افغان سرحد پر حالیہ جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق ایسے واقعات امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان واقعات کی پورے افغانستان میں باز گشت ہو رہی ہے اور کابل حکومت پر بہت زیادہ دباؤ بھی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان نے پاکستان پر راکٹ حملوں کا الزام لگایا تھا۔ جس میں مبینہ طور پر صوبہ کنڑ سے تعلق رکھنے والے چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب باجوڑ میں پاکستانی حکام نے بھی افغان فورسز کی گولہ باری میں جانی و مالی نقصان کا دعویٰ کیا تھا۔
محمد عمر داؤد زئی کا ہنا تھا دونوں ممالک اگرچہ دوستانہ تعلقات کے لیے کوشاں ہیں لیکن کچھ حلقے ایسا نہیں چاہتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول دہشت گردوں کی کارروائیوں کو مشترکہ میکنزم کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔
افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے پاکستان کی قومی اقتصادی کونسل خیبر پاس اقتصادی راہداری کے منصوبے کی منظوری دے چکی ہے۔ جس کے تحت پشاور سے طورخم تک 48 کلو میٹر موٹر وے تعمیر کی جائے گی۔
عمر داؤد زئی کے مطابق یہ ایک اچھا عمل ہے اور سڑکوں کی بہتری سے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تجارت میں بہتری آئے گی بلکہ افغانستان بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے استفادہ کر سکے گا۔
ان کے بقول افغانستان میں اس وقت جنگ جاری ہے تاہم جیسے ہی یہ سلسلہ ختم ہو گا وہاں بھی ترقیاتی کام شروع ہو جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے پاکستان اور ایران کے ساتھ ہمسایہ ممالک ہونے کی وجہ سے دیرینہ تعلقات ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں۔
عمر داؤد زئی کے مطابق افغانستان میں قیامِ امن کی راہ میں رکاوٹیں ضرور ہیں تاہم وہ پُر امید ہیں کہ کئی دہائیوں سے جاری تشدد کو ختم کرنے میں وہ اپنا کردار ادا کر پائیں گے۔