جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان تین روزہ سرکاری دورے پر منگل کو شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ پہنچ رہے ہیں۔
جنوبی کوریا کے حکام کے مطابق صدر مون جائے ان ایک بڑے وفد کے ہمراہ منگل کو شمالی کوریا کے دارالحکومت پہنچیں گے جہاں وہ جمعرات تک قیام کریں گے۔
جنوبی کوریائی حکام کا کہنا ہے کہ صدر مون کا وفد 200 سے زائد افراد پر مشتمل ہے جس میں ملک کی چند بڑی کمپنیوں کے سربراہان اور نمائندے بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق نصف وفد پہلے ہی صدر کے مشیر برائے الحاق سوہ ہو کی سربراہی میں پیانگ یانگ پہنچ چکا ہے جس میں اعلیٰ سرکاری حکام کے علاوہ صحافی بھی شامل ہیں۔
منگل کو صدر کے ہمراہ پیانگ یانگ پہنچنے والوں میں خاتونِ اول کے علاوہ وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع، وزیرِ الحاق، سول شہر کے میئر، سیاست دان، کاروباری شخصیات اور فن کار بھی شامل ہیں۔
دورے کے دوران صدر مون کی شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوں گی جب کہ دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان بھی کئی اجلاس ہوں گے۔
صدر مون اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان حالیہ چند ماہ کے دوران یہ تیسری ملاقات ہوگی جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے اور سرحد پر کشیدگی ختم کرنے سمیت دیگر امور پر بات چیت متوقع ہے۔
جنوبی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران صدر مون کا بنیادی ہدف شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات بہتر بنانا ہے۔
امکان ہے کہ دونوں سربراہان 27 اپریل کو ہونے والی اپنی پہلی ملاقات کے اختتام پر جاری کیے جانے والے 'اعلانِ پنمن جوم' کے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نہ صرف شمالی کوریا کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ وہ پیانگ یانگ اور امریکہ کے درمیان بھی ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
صدر مون کے چیف آف اسٹاف اِم جونگ سیوک نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر مون سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان بات چیت میں معاونت کریں اور اس بارے میں شمالی کوریا کی قیادت کے موقف سے امریکہ کو آگاہ کریں۔
اطلاعات ہیں کہ منگل کو ہونے والی ملاقات کے اختتام پر شمالی و جنوبی کوریا کے سربراہان ایک فوجی معاہدے پر بھی دستخط کرسکتے ہیں جس کے تحت سرحدی کشیدگی کے خاتمے اور اتفاقی جھڑپوں کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
دونوں رہنماؤں نے پنمن جوم میں ہونے والی ملاقات میں اس بارے میں کوئی معاہدہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دونوں رہنما بدھ یا جمعرات کو مشترکہ پریس کانفرنس بھی کرسکتے ہیں جس میں دورے کے دوران ہونے والے اتفاقِ رائے کا اعلان کیا جائے گا۔