اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو انتہائی افزودہ یورینیم، پلوٹینیم اور دیگر تابکار مواد کو "غلط ہاتھوں" میں جانے سے روکنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
دی ہیگ —
تریپن سے زائد ملکوں سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی رہنماؤں اور سربراہانِ مملکت نے جوہری مواد کو دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے کے لیے انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخائر اور استعمال میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔
منگل کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ہونے والے دو روزہ 'جوہری سلامتی کے سربراہ اجلاس' کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں عالمی رہنماؤں نے دنیا کے جوہری اثاثوں کے تحفظ پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اس ضمن میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یوکرین کے معاملے پر ایک دوسرے سے متصادم دنیا کی دو بڑی طاقتوں – امریکہ اور روس- کے علاوہ چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی اپنے اختلافات پسِ پشت ڈالتے ہوئے 36 نکاتی اعلامیے کی توثیق کی ہے.
اعلامیے میں جوہری صلاحیت کے حامل ممالک سے تحقیقی اور دیگر مقاصد کے لیے کم افزودہ یورینیم کے استعمال کی سفارش کی گئی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو انتہائی افزودہ یورینیم، پلوٹینیم اور دیگر تابکار مواد کو "غلط ہاتھوں " میں جانے سے روکنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
اعلامیے میں حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم اور پلوٹینیم کے تیار ذخائر میں کمی کرکے انہیں صرف اس حد تک محفوظ رکھیں جتنا ان کی قومی ضرورتوں کا تقاضا ہو۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی افزودہ یورینیم یا پلوٹینیم کی کچھ مقدار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کی صورت میں وہ اسے ایک گھریلو ساختہ'ڈرٹی بم' کی شکل دے کر استعمال کرسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پیشہ وارانہ مہارت کے بغیر تیار کیے جانے والے اس چھوٹے سے بم کی تابکاری بھی لاکھوں افراد کی جان لے سکتی ہے۔
جوہری اثاثوں کی سکیورٹی پر کام کرنے والے ایک ادارے کے مطابق دنیا میں دو ہزار میٹرک ٹن کے قریب انتہائی تابکار مواد 25 مختلف ملکوں میں قائم سیکڑوں تنصیبات میں موجود ہے۔
ادارے کے مطابق گو کہ اس مواد کا بیشتر حصہ کڑی فوجی نگرانی میں ہے لیکن کچھ حصہ ایسی شہری تنصیبات میں بھی رکھا ہوا ہے جہاں حفاظتی انتظامات اتنے سخت نہیں۔
جوہری اثاثوں کے تحفظ اور متعلق صورتِ حال پر غور کے لیے اس سربراہی اجلاس کا سلسلہ 2010ء میں شروع ہوا تھا اور گزشتہ تین اجلاسوں کی میزبانی نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ نے کی ہے۔ منگل کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق چوتھا 'نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ' 2014ء میں امریکہ کے شہر شکاگو میں ہوگا۔
دی ہیگ میں ہونے والے تیسرے سربراہی اجلاس کے دوران بیلجئم اور اٹلی نے اعلان کیا کہ وہ اپنی تحویل میں موجود انتہائی افزودہ یورینیم اور پلوٹینیم کے ذخائر امریکہ روانہ کرچکے ہیں جہاں انہیں تلف کیا جائے گا۔
جاپان نے بھی اپنے ہزاروں کلوگرام تابکار مواد کو تلف کرنے کے لیے امریکہ روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ہونے والے دو روزہ 'جوہری سلامتی کے سربراہ اجلاس' کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں عالمی رہنماؤں نے دنیا کے جوہری اثاثوں کے تحفظ پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اس ضمن میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یوکرین کے معاملے پر ایک دوسرے سے متصادم دنیا کی دو بڑی طاقتوں – امریکہ اور روس- کے علاوہ چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی اپنے اختلافات پسِ پشت ڈالتے ہوئے 36 نکاتی اعلامیے کی توثیق کی ہے.
اعلامیے میں جوہری صلاحیت کے حامل ممالک سے تحقیقی اور دیگر مقاصد کے لیے کم افزودہ یورینیم کے استعمال کی سفارش کی گئی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو انتہائی افزودہ یورینیم، پلوٹینیم اور دیگر تابکار مواد کو "غلط ہاتھوں " میں جانے سے روکنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
اعلامیے میں حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم اور پلوٹینیم کے تیار ذخائر میں کمی کرکے انہیں صرف اس حد تک محفوظ رکھیں جتنا ان کی قومی ضرورتوں کا تقاضا ہو۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی افزودہ یورینیم یا پلوٹینیم کی کچھ مقدار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کی صورت میں وہ اسے ایک گھریلو ساختہ'ڈرٹی بم' کی شکل دے کر استعمال کرسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پیشہ وارانہ مہارت کے بغیر تیار کیے جانے والے اس چھوٹے سے بم کی تابکاری بھی لاکھوں افراد کی جان لے سکتی ہے۔
جوہری اثاثوں کی سکیورٹی پر کام کرنے والے ایک ادارے کے مطابق دنیا میں دو ہزار میٹرک ٹن کے قریب انتہائی تابکار مواد 25 مختلف ملکوں میں قائم سیکڑوں تنصیبات میں موجود ہے۔
ادارے کے مطابق گو کہ اس مواد کا بیشتر حصہ کڑی فوجی نگرانی میں ہے لیکن کچھ حصہ ایسی شہری تنصیبات میں بھی رکھا ہوا ہے جہاں حفاظتی انتظامات اتنے سخت نہیں۔
جوہری اثاثوں کے تحفظ اور متعلق صورتِ حال پر غور کے لیے اس سربراہی اجلاس کا سلسلہ 2010ء میں شروع ہوا تھا اور گزشتہ تین اجلاسوں کی میزبانی نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ نے کی ہے۔ منگل کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق چوتھا 'نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ' 2014ء میں امریکہ کے شہر شکاگو میں ہوگا۔
دی ہیگ میں ہونے والے تیسرے سربراہی اجلاس کے دوران بیلجئم اور اٹلی نے اعلان کیا کہ وہ اپنی تحویل میں موجود انتہائی افزودہ یورینیم اور پلوٹینیم کے ذخائر امریکہ روانہ کرچکے ہیں جہاں انہیں تلف کیا جائے گا۔
جاپان نے بھی اپنے ہزاروں کلوگرام تابکار مواد کو تلف کرنے کے لیے امریکہ روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔