پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ اے آر وائی نیوز نے درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا ہے۔ برطرف کیے جانے والوں میں اعلٰی عہدوں پر فائز ملازمین کے علاوہ رپورٹرز اور تکنیکی عملہ بھی شامل ہے۔ اے آر وائی نیوز انتظامیہ نے ان برطرفیوں کی تصدیق کی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے کنٹرولر نیوز عامر اسحاق سہروردی بھی برطرف کیے جانے والوں میں شامل ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر اسحاق سہروردی نے بتایا کہ موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار محض حکومت اور اداروں کو قرار دینا مناسب نہیں۔
ان کے بقول میڈیا مالکان سے اپنے منافع میں کمی برداشت نہیں ہو رہی اور اس کا نزلہ ملازمین پر گرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح پرکشش نرخوں پر اشتہارات دینے پر رضامند نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ میڈیا مالکان نام نہاد بحران پیدا کر کے ملازمین کا استحصال کر رہے ہیں۔
میڈیا حلقے اے آر وائی نیوز انتظامیہ کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ میڈیا گروپ میڈیا صنعت میں موجود دیگر ٹی وی چینلز کے مقابلے میں معاشی طور پر قدرے مستحکم تصور کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل دنیا نیوز اور اسی سے وابستہ علاقائی چینل لاہور نیوز اور ملتان سے روزنامہ دنیا اخبار سے بھی درجنوں ملازمین کو فارغ جب کہ اخبار کا ملتان ایڈیشن بند کردیا گیا تھا۔
اسی طرح روزنامہ جنگ سے بھی گزشتہ چند ماہ میں سیکڑوں ملازمین کو فارغ کیا گیا ہے۔ ان اداروں سے فارغ کئے گئے ملازمین میں متعدد رپورٹرز، کیمرہ مین، سیٹ ڈیزائینرز، کاپی ایڈیٹرز، سیٹلائٹ اسٹاف اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔
عامر اسحاق سہروردی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافتی اقدار نہ ہونے کے برابر ہیں ایسے میں ایڈیٹوریل پالیسی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ان کے بقول میڈیا مالکان کو کسی جواز کی تلاش تھی جو انہیں حکومت کی جانب سے فراہم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے میڈیا انڈسٹری پر آئے ہوئے اس بحران کی ایک وجہ ان اینکرز کو بھی قرار دیا ہے جو ان کے مطابق درجنوں صحافیوں کی تنخواہ کے برابر تنخواہ وصول کرتے ہیں جب کہ انہیں مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔
عامر اسحاق نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہر سال پاکستان میں لگ بھگ پانچ ہزار طلبہ ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ان طلبا کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔
ٹی وی چینل انتظامیہ کا موقف
اے آر وائی نیوز میں سینئیر ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر تعینات عماد یوسف نے چینل سے برطرفیوں کے فیصلے کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں اشتہارات کا کاروبار 40 فی صد کم ہوا ہے جس کا گہرا اثر لا محالہ ٹی وی انڈسٹری پر بھی پڑا ہے۔
ان کے مطابق ان کے ادارے نے بھر پور کوشش کی تھی کہ ملازمین کو نکالنے کی نوبت نہ آئے لیکن ادارے کی مالی مشکلات حد سے بڑھ جانے کے باعث یہ فیصلہ ناگزیر ہوگیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھی نیٹ ورک سے 200 جب کہ نیوز سے وابستہ افراد میں سے صرف 30 لوگوں ہی کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔
صحافتی تنظیموں کا موقف
پاکستان فیڈرل یونین آف جنرنلسٹس(پی ایف یو جے) کے صدر غلام محمد جمالی نے الزام عائد کیا ہے کہ میڈیا مالکان حکومتی اور پس پردہ طاقتوں کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں۔ ان کے بقول ان اقدامات کا مقصد آزادی اظہار رائے کو دبانا ہے جب کہ میڈیا مالکان کی سوچ صرف پیسہ کمانے کی حد تک محدود ہے۔
صحافتی تنظیموں نے حالیہ برطرفیوں کے خلاف احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے۔ پی ایف یو جے کے مطابق ملک بھر سے گزشتہ دو سالوں کے دوران برطرف کیے گئے ملازمین کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
صحافتی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ایسے قوانین موجود نہیں جو میڈیا ملازمین کے ملازمتوں کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہوں۔
صحافی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف صحافیوں کو برطرف کیا جا رہا ہے۔ بلکہ مختلف اداروں میں تاخیر سے تنخواہیں ادا کرنا معمول بن چکا ہے۔ حال ہی میں مختلف نیوز چینلز کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیاں بھی کی گئیں ہیں۔
حکومتی موقف کیا ہے؟
دوسری جانب حکومتی عہدیداران ان دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ حکومت آزادی صحافت پر کوئی قدغن لگانا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کا بحران جہاں معاشی بحران سے منسلک ہے وہیں میڈیا کی جانب سے حکومت سے بعض غیر منصفانہ توقعات بھی لگائی گئی ہیں۔ ان کے خیال میں میڈیا میں بھی ادارتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آزادی اظہار میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 142واں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں یہاں آزادی اظہار کم ہوا ہے اور پاکستان 139 سے مزید تین درجے نیچے آیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا اور کھلی سنسر شپ کے ذریعے میڈیا پر دباو ڈالا گیا۔